غریب بچوں کی زندگی بہتر بنانے میں مصروف دہلی پولیس کی کانسٹیبل ممتا اور نشا

غریب بچوں کی زندگی بہتر بنانے میں مصروف دہلی پولیس کی کانسٹیبل ممتا اور نشا

Sunday January 03, 2016,

4 min Read

پولیس کا نام لیتے ہی لوگوں کے دماغ میں خاکی وردی پہنے ایسے ، ہاتھ میں بندوق یا لاٹھی لے کر لوگوں کو اپنا رعب دکھانے والے شخص کی تصویر ابھرتی ہے۔ پولیس والے عام طور پر بڑے سخت اور سختی سے کام لینے والے نظر آتے ہیں، لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا ہے۔ کم از کم دہلی پولیس کی دو کانسٹیبل مملا نیتی اور نشا کے بارے میں تو یہ بالکل نہیں کہا جا سکتا ہے۔ یہ کانسٹیبل غریب بچوں کو پڑھا لكھاكر انہیں زندگی میں کچھ کرنے کے قابل بنانے کے کام میں لگی ہوئی ہیں۔

image


شمالی دہلی کے تمارپر اور روپ نگر پولیس تھانوں میں روزانہ جھگی بستیوں میں رہنے والے غریب خاندان کے بچوں کو نہ صرف پڑھایا جا رہا ہے، بلکہ انہیں اس قدر مضبوط بنایا جا رہا ہے کہ وہ اپنے آس پاس ہونے والی غلط سرگرمیوں کی مخالفت کر جرم پر قابو کرنے میں پولیس کی مدد کر سکیں۔

يورسٹوري کو ممتا بتاتی ہیں کہ '' تمارپر اور روپ نگر پولیس تھانوں کے آس پاس بڑی تعداد میں سلم بستیاں ہیں۔ ان بستیوں میں رہنے والے زیادہ تر لوگ خاندان کے گزر بسر کے لئے چھوٹے موٹے کام کرتے ہیں۔ ان خاندانوں کے بچے اسکول کے بعد خالی وقت میں ادھر ادھر گھوما کرتے تھے، جس سے ان کے غلط راستوں پر جانے کا خدشہ بنا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ جھگیوں میں رہنے والی چھوٹی بچیوں کے ساتھ جرم ہونے کا خطرہ بھی رہتا تھا۔

چھ ماہ سے ان دونوں پولیس تھانوں میں کانسٹیبل ممتا نیگی- تمارپر اور کانسٹیبل نشا- روپنگر نے یہاں کے بچوں کو پڑھانے اور انہیں اپنے دفاع میں مہارت حاصل کرنے کی تربیت دینے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

نشا بتاتی ہیں، '' ہر تھانے میں تقریبا 50 بچے پڑھنے کے لئے آتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر بچے سرکاری اسکول میں پڑھنے والے یا کسی وجہ اسکول چھوڑ چکے بچے شامل ہیں۔ زیادہ تر بچے پڑھنے میں تیز ہیں، لیکن صحیح سمت اور مشورہ نہ مل پانے کی وجہ سے یہ کچھ پچھڑ گئے ہیں۔ تھانوں میں بچوں کے اسکول کے نصاب کے علاوہ انگریزی، ریاضی اور معلومات عامہ پر بھی خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔

ممتا کہتی ہیں

''میں نے خود ایک سرکاری اسکول سے تعلیم حاصل کی ہے۔ سرکاری اسكول میں نہ صرف وسائل کی کمی ہوتی ہے، بلکہ کئی بار استاد صرف نام کے لئے پڑھاتے ہیں۔ سب کے پاس ٹیوشن پڑھنے کے لئے پیسے نہیں ہوتے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ ان بچوں کے ماں باپ غریب اور کم پڑھے لکھے کیوں نہ ہوں، لیکن وہ تعلیم کے بارے میں شعور رکھتے ہیں اور روزانہ اپنے بچوں کو یہاں پڑھنے بھیجتے ہیں۔ ''
image


نشا کہتی ہیں

'' میں دہلی پولیس جوائن کرنے سے پہلے بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی تھی۔ ایسے میں مجھے بچوں کو پڑھانے کے بہانے خود بھی پڑھنے کا موقع ملتا ہے۔ یہاں پڑھنے والے زیادہ تر بچے کافی ذہین ہیں، جنہیں صرف صحیح راہ دکھانے اور صحیح ماحول دینے کی ضرورت ہے۔''

یہاں پڑھنے والے والے نکھل کہتے ہیں ''پہلے میری انگریزی اچھی نہیں تھی، لیکن جب سے میں یہاں آکر پڑھنے لگا ہوں میری انگریزی بہت بہتر ہوئی ہے۔ اب انگریزی کے امتحان میں میرے بہت اچھے نمبر آنے لگے ہیں۔ نشا میم کہتی ہیں کہ ہم تمام بڑے ہوکر ملک کی خدمت کریں گے تو مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ میں بھی ان کی طرح بڑا ہو کر پولیس جوائن کروں گا۔''

کاجل کہتی ہیں کہ

''ممتا میم ہمیں نہ صرف پڑھاتی ہیں، بلکہ رقص اور یوگا بھی سکھاتی ہیں۔ وہ ہمیں مقابلہ میں جیتنے پر چاکلیٹ اور قلم دیتی ہیں۔ میم ہمیں اکشردھام مندر بھی گھمانے لے گئی تھیں، جہاں ہم نے اپنے ملک کی ثقافت اور عظیم شخصیتوں کے بارے میں جانا۔''

دہلی پولیس کے 'شی ٹو شکتی' پروگرام کے تحت یہ پروگرام چلایا جاتا ہے، جس کا بنیادی مقصد خواتین کو بااختیار بنانا ہے۔ 'شی ٹو شکتی' پروگرام کے تحت دہلی پولیس مختلف کالج کی لڑکیوں کو خود ڈیفنس ٹریننگ دیتی ہیں، وقت وقت پر اینٹی يوٹيزنگ ڈرائیو چلاتی ہیں اور انہیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں مدد بھی کرتی ہیں۔

قلمکار انمول

مترجم: زلیخا نظیر