پدمنی ڈاکٹر نہیں بن پائی،لیکن ملازمتیں دلا کر دس ہزار نوجوانوں کے خوابوں کو کیا شرمندہ تعبیر

ڈاکٹروں کے خاندان میں پیداہوئی تھیں اسی وجہ سے ڈاکٹر بننا چاہتی تھیں... میڈیکل کالج میں جب سیٹ نہیں حاصل کر پائی، تب بہت مایوس اور نا امید ہوئیں...ماں باپ نے حوصلہ بڑھایا اور زندگی کا مقصد بتایا ...کمپیوٹر کی تعلیم حاصل کی اور مختلف سافٹ ویئر کمپنیوں میں مختلف عہدوں پر مختلف جگہ کام کیا ...نوکری کرتے ہوئے بھی کیا نوجوانوں کو کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی تربیت دینے کا کام... دس ہزار سے زیادہ نوجوانوں کو روزگار دلوانے میں ہوئیں کامیاب ... چودہ سال تک ويكینڈس میں ہر دن سولہ گھنٹے تک کیا کام... خواتین کی حوصلہ مندی کی حیرت انگیز مثال ہیں پدمنی

پدمنی ڈاکٹر نہیں بن پائی،لیکن ملازمتیں  دلا کر دس ہزار نوجوانوں کے خوابوں کو کیا شرمندہ تعبیر

Tuesday June 14, 2016,

11 min Read

پدمنی کے والد ڈاکٹر تھے اور دو مامو بھی۔ ایک مامو ساحلی آندھرا علاقے کے پہلے سرجن ہوئے تو دوسرے مامو لندن میں پریکٹس کرنے والے ہندوستان کے پہلے نفسیاتی ڈاکٹر یعنی سائكاٹرسٹ بنے۔ جب پدمنی پڑھ رہی تھیں، تبھی ان کے دو بڑے بھائیوں میں سے ایک نے ایم بی بی ایس سیٹ حاصل کر لی تھی۔ فطری طور پر پدمنی پر بھی ڈاکٹر بننے کا دباؤ تھا۔ پدمنی نے بھی ڈاکٹر بننے کے خواب دیکھے۔ اس کے لئے خوب محنت بھی کی، لیکن وہ ایم بی بی ایس سیٹ حاصل کرنے میں ناکام رہیں۔ میڈیکل کالج کے انٹرنس امتحان میں ان کا رینک 2000 کے پار تھا۔ 500 سے کم رینک حاصل کرنے پر ہی میڈیکل کالج میں داخلے کی گنجاائش تھی۔ میڈیکل کالج میں سیٹ حاصل نہ کر پانے سے پدمنی کو گہرا جھٹکا لگا۔ انہیں یقین ہی نہیں ہو رہا تھا کہ وہ ناکام ہوئی ہیں اور ڈاکٹر بننے کا ان کا خواب ٹوٹ رہا ہے۔ گھر والوں کی امیدوں پر کھرا نہ اترنا بھی انہیں خوب كھٹكنے لگا۔ وہ اداس رہنے لگی۔ مایوسی میں ڈوب گئیں۔ پدمنی نے کھانا تک بند کر دیا۔ ان کی حالت بگڑنے لگی۔ ہٹی کٹی اور تدرست پدمنی کچھ ہی دنوں میں دبلی پتلی اور کمزور ہو گئیں۔ گھر والوں نے خوب سمجھایا، لیکن وہ نہیں مانیں۔ جب ماں باپ اور خاندان کے دوسرے لوگوں نے یہ سمجھایا کہ ڈاکٹر نہ بن پانے سے زندگی ختم نہیں ہو جاتی اور بغیر ڈاکٹر بنے بھی خوب نام، شہرت، دولت کمائی جا سکتی ہے، تب جاکر کہیں پدمنی نے اپنی بھوک ہڑتال ختم کی۔

آندھرا یونیورسٹی میں پہلی بار بی ایس سی (بائيو کیمسٹری) کا کورس شروع کیا جا رہا۔ چونکہ یہ کورس ایم بی بی ایس سے کچھ حد تک ملتا جلتا تھا، گھر والوں کو لگا کہ پدمنی کا داخلہ اس کورس میں کرایا جانا چاہئے۔ پدمنی کو اس کورس میں سیٹ مل گئی۔ایک بار پھر پدمنی نے خوب محنت کی، لیکن جب وہ ڈگری فرسٹ ایئر میں تھیں تبھی ان کی شادی کر دی گئی۔ شادی کے وقت پدمنی کی عمر 18 سال تھی۔ ان کے شوہر نرسمہا راؤ خود خوب پڑھے لکھے تھے۔ ان کے پاس بی کام اور ایل ایل بی کی ڈگرياں تھیں۔ نرسمہا راؤ بہت ساری زراعت کے بھی مالک تھے۔

شادی کے بعد شوہر نے پدمنی کو تعلیم حاصل کرنے سے نہیں روکا، لیکن جب پدمنی کا لڑکا پیدا ہوا تب انہیں احساس ہوا کہ بچے کی دیکھ بھال کرتے ہوئے وہ بی ایس سی (بايو کیمسٹری) جیسے مشکل موضوع پر زیادہ توجہ نہیں دے پائیں گی۔ بچے کی صحیح پرورش کی خاطر پدمنی نے بی ایس سی (بايو کیمسٹری) کا کورس درمیان میں ہی چھوڑ دیا، لیکن زیادہ دن تک وہ اپنے آپ کو پڑھائی سے دور نہیں رکھ پائی۔ خوب پڑھ لکھ کر بڑا کام کرنے اور نام کمانے کی خواہش دل میں پھر سے پیدا ہوئی۔ شوہر کی اجازت اور مدد سے پدمنی نے بی کام کورس میں داخلہ لیا۔ بیوی اور ماں کی ذمہ داریاں بخوبی نبھاتے ہوئے پدمنی نے پڑھائی جاری رکھی۔ بی کام کی ڈگری لینے کے بعد بھی انہوں نے تعلیم جاری رکھنے کا فیصلہ لیا۔ چونکہ اس وقت (90 کی دہائی میں) آئی ٹی انقلاب زوروں پر تھا، پدمنی نے آئی ٹی میں تعلیم لینے کی ٹھانی۔ پدمنی نے ڈپلوما ان کمپیوٹر ایپلی کیشنز کی تعلیم حاصل کی۔ اس کورس کے دوران وہ کمپیوٹر کی تفصیلات کو سمجھ گئیں۔ انہیں احساس ہو گیا کہ مستقبل کمپیوٹر اور انفارمشن ٹیکنالوجی کا ہوگا۔ پدمنی نے کمپیوٹر کی باریکیاں سمجھ لی تھیں اور یہی وجہ تھی کہ امریکہ جاکر کام کرنا چاہتی تھیں، لیکن انہیں ویزا نہیں ملا۔ ہیچ 1 ویزا کے لئے ان کی عرضی خارج کر دی گئی۔

اس واقعہ سے غمگین پدمنی نے دو بڑے فیصلے لئے۔ پہلا-اپنی انگریزی بہتر بنانے کا اور دوسرا پی جی کی ڈگری حاصل کرنے کا۔ اپنے فیصلوں کو عملی جامہ پہناتے ہوئے انہوں نے تمل ناڈو کے ترونلویليی کے ایم ایس یونیورسٹی میں ماسٹرز ان کمپیوٹر ایپلی کیشنز کورس میں داخلہ لے لیا۔

ہیچ 1 ویزا کی درخواست خارج ہونے کے بعد پدمنی نے انگریزی زبان پر اپنی گرفت مضبوط بنانے پر بھی توجہ دینا شروع کر دیا تھا۔ اسی دوران ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے پدمنی کی زندگی بدل دی۔ واقعہ افسوسناک تھا، لیکن اس نے پدمنی کو ایک نیا راستہ دکھایا۔ اس واقعہ کی وجہ سے ان کے سامنے جو الجھنیں تھیں وہ دور ہو گئیں۔ انہیں کئی سوالوں کا جواب مل گیا۔ 1996 میں پدمنی کی ماں کی موت ہو گئی۔ انہیں پھیپھڑوں کی بیماری تھی۔ ان کا جب علاج چل رہا تھا، تب انہوں نے پدمنی کی نام ایک خط لکھا تھا۔ اس چٹی میں ماں نے پدمنی سے کہا تھا - تمہیں نوکری کرنی چاہئے۔ اپنے خوابوں کو پورا کرو، ملازمت کرو، آگے بڑھو اور اپنی زندگی اپنے حساب سے جیو۔ ماں پدمنی کو بہت چاہتی تھیں۔ وہ پدمنی کے جذبات اور خواب کے بارے میں اچھی طرح سے جانتی تھیں۔ پدمنی کا بھی اپنی ماں سے بہت لگاؤ تھا۔ مرنے سے کچھ ہی پہلے لکھی گئی ماں کی اس چٹھی کو پدمنی نے اپنے دل اور دماغ میں اتار لیا۔ پدمنی بتاتی ہیں،

"میں نے اب بھی میری ماں کا وہ خط سنبھال رکھا ہے۔ اس خط نے فیصلے لینے میں میری مدد کی تھی۔ خط نے مجھے کامیابی کا راستہ دکھایا تھا۔"

پدمنی نے اپنی نوکری پیشہ زندگی کے آغاز میں اپنے بیٹے سندیپ کی اسکول سر سی آر ریڈی پبلک اسکول میں بطور کمپیوٹر ٹیچر کام کیا۔ یہ نوکری پارٹ ٹائم تھی۔ 1998 میں انہیں پہلی بار ایک سافٹ ویئر کمپنی میں ملازمت ملی۔ ان کے ایک بھائی کے دوست ایک کمپنی میں سی ای او تھے۔ یہیں پر پدمنی کو بطور ٹرینی کام کیا، جب ان کی تنخواہ پانچ ہزار روپے مہینہ تھی۔

جنوری، 2000 سے دسمبر، 2003 تک پدمنی نے حیدرآباد میں کلارا نام کی کمپنی میں کام کیا۔ جنوری، 2004 سے مئی 2005 تک حیدرآباد میں ہی مايسس نام کی کمپنی میں ملازمت کی۔ ان دونوں کمپنیوں میں پدمنی 'ٹیسٹ مینیجر' تھیں۔ 1998 میں کام کے لئے پدمنی حیدرآباد آئی تھیں، لیکن ان کا خاندان مغربی گوداوری ضلع میں ہی تھا۔ پدمنی پیر سے جمعہ تک کام کرتیں اور پھر جمعہ کو دفتر کا کام ختم ہوتے ہی بس سے اپنے گھر چلی جاتیں۔ اتوار کی رات پھر حیدرآباد لوٹ آتیں۔ 1998 سے 2000 تک پدمنی کو اسی طرح سے کام کرنا پڑا۔ بعد میں جب پدمنی کا خاندان حیدرآباد آکر بس گیا تب بھی پدمنی اپنے خاندان کے ساتھ زیادہ وقت نہیں گزار پائیں۔ کام کے سلسلے میں ہی انہیں بنگلور جا کر رہنا پڑا۔ پدمنی کے بتایا، "2003 میں مجھے بڑا بریک ملا۔ مجھے آئی بی ایم میں نوکری مل گئی۔ میں نے آئی بی ایم بنگلور میں صرف پانچ ماہ کام کیا لیکن یہاں کام کرنے کا تجربہ آگے چل کر میرے لئے بہت کام آیا۔"

پدمنی نے دو سال برلا سافٹ کے لئے بھی کام کیا۔ یہیں انہیں امریکہ جانے کا موقع ملا۔ جسے پدمنی آپ نوکری پیشہ زندگی کی سب سے بڑی کامیابی مانتی ہیں وه بتاتی ہیں،

جب برلا سافٹ کی شروعات ہوئی تھی تو میں کمپنی کی پانچویں ملازم تھی۔ یہاں مجھے نوئڈا میں آن سائٹ پروجیکٹ منیجر بنایا گیا تھا۔ یہیں پر کام کرتے ہوئے مجھے ہیچ 1 ویزا ملا۔ مجھے پہلی بار امریکہ جانے کا موقع ملا تھا میں نے امریکہ میں میں جی پی مورگن چیس اینڈ کمپنی سے ایک ملین ڈالر کا معاہدہ کروانے میں کامیاب ہوئی تھی۔ یہ میرے جیسی ملازم کے لئے بڑی کامیابی تھی۔ "

پدمنی جب اپنی اس کامیاب امریکہ سفر کے بار میں بتا رہی تھیں تب ان کے چہرے پر خوشی صاف چھلک رہی تھی۔ روکے نہیں رکنے والی اس خوشی کے ساتھ پدمنی نے کہا،

"اس وقت بھی میری انگریزی اتنی اچھی نہیں تھی۔ میری تعلیم دیہی ماحول میں ہوئی تھی۔ ابتدائی تعلیم میں تیلگو میں تھی۔ میں نے پہلے کبھی اس طرح کے بڑے معاہدوں کے لئے کسی سے بات بھی نہیں کی تھی۔ جے پی مورگن چیس کمپنی بہت ہی مشہور تھی۔ میرے آفس میں بھی کوئی اس طرح کی بڑی ڈیل کی امید مجھ سے نہیں کر رہا تھا، لیکن میں کامیاب رہی۔ وہ دن میں کبھی بھی بھول نہیں سکتی۔ نوکری کرتے ہوئے وہ میری اب تک کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ "

پھر پدمنی کو اس وقت کی مشہور کمپنی ستیم نے ملازمت کی پیشکشیں کی۔ آفر اچھا تھا، تنخوا تگڑی تھی۔ پدمنی نے نوئیڈا میں برلا سافٹ کی نوکری چھوڑ کر بنگلور میں ستیم کے لئے کام کرنا شروع کر دیا، لیکن جب 2009 میں ستیم میں کافی اتھل پتھل ہوئی تب پدمنی نے اپنے دوسرے ساتھیوں کی طرح یہاں نوکری چھوڑ دی۔ ستیم میں پدمنی کا رتبہ بہت بڑا تھا۔ بیس کلائنٹ تھے۔ یعنی بیس اکاؤنٹ وہ خود ہینڈل کر رہی تھیں۔ 600 ملازمین کی وہ لیڈر تھیں۔ ستیم کی نوکری چھوڑنے کے بعد انہوں نے کچھ ماہ ناراس میں کام کیا۔ اس کے بعد انہوں نے ایکسینچر کمپنی جوائن کی۔ یہاں وہ سینئر منیجر بنیں۔ یعنی کمپنی میں ان کا عہدہ ایسوسیٹ وائس پریسڈنٹ کا تھا۔ تین سال ایک ماہ تک ایکسینچر کے لئے بنگلور میں کام کرنے کے بعد انہوں نے ایک اور کمپنی یو ایس ٹی گلوبل میں ملازمت حاصل کی اس کمپنی کے لئے پدمنی نے کیرالہ کے دارالحکومت ترواننت پورم جاکر کام کیا۔

سولہ سال تک پدمنی نے گھر سے دور رہ کر کئی ملازمتیں کیں۔ بہت سے مسائل کا سامنا کیا۔ زیادہ تر وقت خاندان سے دور رہیں۔ مسلسل کام کرتی رہیں۔محنت، لگن اور قابلیت کے بل پر مسلسل ترقی کی۔ اونچے عہدوں پر کام کیا اور خوب نام کمایا۔ پدمنی نے اپنی کامیابیوں سے ثابت کیا کہ خواتین بھی نوکری پیشہ زندگی اپنا سکتی ہیں، آئی ٹی اور سافٹ ویئر کی دنیا میں بھی خواتین کسی بھی بھی طرح مردوں سے پیچھے نہیں ہیں۔

پدمنی نے اپنی ملازمت کے دوران کئی افراد کو ملازمتیں دلوائیں۔ کئی نوجوانوں کو "ٹیسٹنگ ٹولز" کی تربیت دی۔ تقریباً آٹھ اداروں میں نوجوانوں کو آئی ٹی کمپنیوں میں کام کے لئے ضروری ٹریننگ دی۔ وہ بتاتی ہیں کہ صبح 6 بجے سے دوپہر ایک بجے تک وہ الگ الگ اداروں میں نوجوانوں کو تربیت دیتی تھی۔ وہ پیر سے جمعہ ہر دن سولہ گھنٹے کام کرتی تھیں۔ اور جب ہفتے کے آخر میں پر دو دن کی چھٹی ملتی تب بس کا لمبا سفر طے کر کے خاندان سے ملنے چلی جاتیں۔

اس دوران انہوں نے دس ہزار سے زیادہ نوجوانوں کو روزگا سے جوڑا۔ پدمنی کہتی ہیں، "نوجوانوں کو کمپیوٹر کی زبان سکھانے میں مجھے بڑا مزا آتا ہے۔ میں نے جو سیکھا اور سمجھا وہی نوجوانوں کو بتایا اور سکھایا۔ میرے پاس جو نوجوان آتے تھے، میں انہیں ان کی قابلیت کے حساب سے روزگار کے مواقع دکھاتی تھی ۔ انٹرویو کس طرح دینا ہے یہ بھی سمجھاتی تھی۔ میرے پاس زیادہ تر لوگ ایسے آتے تھے جو دیہی ماحول سے ہوتے تھے۔ چونکہ میں بھی دیہی ماحول سے ہی ہوں میں ان دقتوں کو سمجھتی ہوں۔ میں کوشش کرتی کہ انہیں ٹیکنالوجی اور ٹولز کا علم دینے کے علاوہ ان کا جوش و خروش اور حوصلہ بھی بڑھاوں۔''

سولہ سال تک مختلف کمپنیوں کے لئے مختلف عہدوں پر مختلف جگہ نوکری کرنے کے بعد پدمنی نے اپنی ذاتی کمپنی کھولنے کا فیصلہ لیا تھا۔ است گلوبل کمپنی میں وائس-پریسیڈنٹ کے بڑے عہدے والی نوکری چھوڑ کر پدمنی حیدرآباد آ گئیں۔ انہوں نے سنہیتا سافٹ نام سے اپنی کمپنی کھولی۔ یہ کمپنی نوجوانوں کو ملازمتیں حاصل کرنے کے لئے ٹریننگ دینے کا کام کر رہی ہے۔ کمپنی شروع کرنے کی وجہ بھی ایک دلچسپ واقعہ ہے۔ پدمنی نے بتایا،

"ایک دن ٹرانسپورٹ کارپوریشن کا ایک ملازم میرے پاس آیا۔ اس نے مجھے اپنی سیلری بک دکھائی اور ساتھ ہی اپنے لڑکے کی پے سلپ بھی۔ اس نے مجھ سے کہا کہ سالوں کام کرنے کے بعد بھی میری تنخواہ پانچ سے آٹھ ہزارہے اور آپ نے میرے بیٹے کو اس کی پہلی نوکری میں ہی پچپن ہزار کی تنخواہ دلوا دی۔ اس ملازم نے مشورہ دیا کہ مجھے اپنا پورا وقت نوجوانوں کو نوکری دلانے میں ہی صرف کرنا چاہئے۔ مجھے اس کا یہ مشورہ اچھا لگا اور میں نے اپنی کمپنی شروع کر لی۔ "

ایک سوال کے جواب میں پدمنی نے کہا، " بچپن میں میں کلاس لیڈر تھی، لیکن ڈاکٹر نہ بن پانا میرے لئے کچھ دن تک پریشانی اور مایوسی کا سبب تھا۔ ماں باپ کی وجہ سے میں سنبھل گئی۔ اور آگے اپنے شوہر اور بیٹے کی مدد سے اپنے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کیا۔ مجھے اس بات کی سب سے زیادہ خوشی ہے کہ میں دس ہزار سے زیادہ لوگوں کو سافٹ ویئر کے شعبوں میں نوکری دلوانے میں کامیاب ہوئی۔ "