نوجوانوں کا تحریکی سفرجو آپ کو بنادیگا ایک کامیاب تاجر
Friday March 11, 2016,
6 min Read
آپ نے اپنی زندگی میں طرح طرح کے سفر کئے ہوں گے - کیا کبھی آپ ایسے سفر پر گئے ہیں جس نے آپ کی زندگی ہی بدل دی ہو یا اسے سنوار دیا ہو ؟ آپ کو جیسے کوئی سمت مل گئی ہو - جس سفر کی وجہ سے آپ کو تجارت کے لحاظ سے نئے راستے مل گئے ہوں؟
یہاں ہم آپ کو ایسے ہی ایک سفر کے بارے میں معلومات دینا چاہتے ہیں جو ہر سال ہوتا ہے - جس کا نام ہے جوانوں کا تحریکی سفر – "آئی فارینشن" کے تحت اس سفر کا انتظام کرتے ہیں - بی ایچ یو ایک پہلا طالب علم تھا اس کے معاون منتظم ریتیش گرگ اور نوین گویل جو اپنے اس سفر کے ذریعے ایسے جنونی جوانوں کو جمع کرکے ان جگہوں کی سیر کرواتے ہیں یا ایسے لوگوں سے ملواتے ہیں جنہوں نے سماج میں اپنی مثال آپ قائم کی ہو -
ریتش اترا کھنڈ کے ہردوار ضلع کے روڈ تحصیل کے منگلور گاوں میں رہتے ہیں - یہاں رہ کر انہوں نے اپنی پڑھائی مکمل کی - ریتیش نے یور اسٹوری کو بتایا
"گریجویشن کے دوران مجھے کچھ مختلف قسم کا کام کرنے کا خیال آیا - میں ملازمت کرنا نہیں چاہتا تھا - مجھے اپنی ریسرچ کے دوران علم ہوا کہ سب سے مشکل کام ہے ISS بنناISSکی تیاری کے لیے میں دلی آیا - پتہ چلا کہ کی کوچنگ کافی مہنگی ہے- اس کے باوجود جیسے تیسے ISS کی تیاری کی۔ اور تیسرے سال اس امتحان میں کامیاب ہوگیا -"
لیکن قسمت میں کچھ اور ہی لکھا تھا اس لیے انٹرویو کے دوران ان کی سمجھ میں آگیا کہ وہ ملازمتمیں خود کو قید نہیں رکھ سکتے -ا نہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ MBA کریں گے۔ ڈھائی ماہ یم۔ بی۔ اے کی پڑھائی کرنے کے بعد نہوں نے کیٹ کا امتحان پاس کیا -اسی لیے BHU میں ان کا داخلہ ہوگیا -
انہوں نے یہ طے کر رکھا تھا کہ وہ کبھی نوکری نہیں کریں گے - اس دوران انہوں نے دو تین مرتبہ سرکاری نوکری بھی کی لیکن اسے بھی چھوڑدیا- ریتیش چاہتے تھے کہ وہ ملک کےلیے کوئی کام کریں گے جس کی وجہ سے لوگوں کو فائدہ ہو۔
ایم۔ بی۔ اے کی پڑھائی کے دوران انہوں نے سیوارتھ نام کا ایک سنگھٹن تیار کیا اور بنارس کے آس پاس کے NGO سے مل کر ان کی مدد کرنے لگ۔ ے MBA کرنے کے بعد وہ گجرات ، راجستھان کے آدی واسیوں کے درمیان رہ کر ان کےلیے بھی کئی کام کئے - اس کے بعد انہوں نے UP کے پانچ ضلعوں شاہجہاں پور ، ہری دوار ، ی بھیت، بدایوں اور سیتا پور میں لوگوں کی مہارتوں کو ترقی دینےکا کام کیا - اس دوران انکو جان سے مارنے کی دھمکی بھی ملی لیکن کسی بھی دھمکی سے بے پرواہ ریتیش نے ان باتوں پر توجہ نہ دیتے ہوئے اپنا کام کیا -
لوگوں کے درمیان کام کرنے کے دوران انہوں نے محسوس کیا کہ حالات کافی قابل رحم ہیں ان کے دل میں خیال آیا - گاوں کے بچوں کی ترقی پر کیوں نہ توجہ دی جائے - اس وقت سب سے بڑا مسئلہ روزگار سے متعلق تھا - انہوں نے پورے ملک کا دورہ کیا اور تقریبا تین ہزار گاوں کا جائزہ لیا - ہمالیہ سے لے کر میدانی علاقوں کا بھی دورہ کیا - جہاں پر اکثر انہوں نے لوگوں سے کہتے سنا کہ پہاڑ کی جوانی و پانی کبھی پہاڑ کے کام نہیں آتا کیونکہ جوان روزگار کی تلاش میں شہر کی جانب رخ کرلیتے ہیں جیسے پہاڑ سے ندیوں کا پانی بہہ کر میدانی علاقوں کو سیراب کرتا ہے - ریتیش کے مطابق تب میں نے سوچا کہ کیوں نہ پانی اور جوانی کو جوڑ دیا جائے اور وہ ایک دوسرے کے متبادل بنے لیکن ان کے سامنے سب سے بڑا چیلنج تھا لوگوں کی توجہ پہاڑی علاقوں تجارت کی طرف مرکوز کرنا - انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ جن مشکلات کا سامنا کرکے وہ روزگار حاصل کررہے ہیں اگر وہی روزگار بآسانی مل جائے تو ان کے تمام مسائل حل ہوجائے گے اور ان کے اپنے علاقے میں بہت ساری تبدیلیاں بھی رونما ہوسکتی ہیں -
اس کے بعد انہوں نے ایک پروگرام تیار کیا جس کا نام رکھا جوانوں کا تحریکی سفر - اس میں انہوں نے 100 لوگوں کو منتخب کیا ان میں سے 50 لوگ ہمالیہ میں مقیم اور 50 دیگر علاقوں سے تھے -
انکا مقصد تھا کہ ایک طرف جو زمینی کام کرتے ہیں دوسری طرف جو تکنیکی علم سے واقفیت رکھنے والے افراد ہیں انہیں ایک پلیٹ فارم پر لایا جائے تاکہ وہ ایک دوسرے سے معلومات شئیر کرکے ترقی کرسکتے ہیں - جو اپنے تخلیقیت کی بنیاد پر کاروبار کررہے ہیں انہیں انسو لوگوں سے ملوانا جو کچھ نیا کرنے کے جنونی ہوتے ہیں - وہ پچھلے تین سالوں سے اس سفر کو چلا رہے ہیں - ان کے مطابق تقریبا 35 فیصد لوگوں نے اس اسکیم سے فائدہ اٹھایا ہے - جیسے اتر کاشی کے ایک گاوں میں 6 کسانوں نے مل کر سبزی کی پیداوار کا کام شروع کیا تھا - آج سو کسان مل کر یہ کام کررہے ہیں -
خاص بات یہ ہے کہ مدر ڈیری بھی ان کسانوں کی سبزیاں خریدتی ہیں - اتنا ہی نہیں ان کسانوں نے بنا بجلی کا ایک روپ وے بنایا ہے جو 1200 میٹر کی اونچائی تک سبزی لانے لے جانے کا کام کرتا ہے -
جوانوں کے تحریکی سفر کی وجہ سے بہرائچ کے رہنے والے ہیمانشو کالیا نے گاوں والوں کے ساتھ مل کر ایکٹیو ریزم کا کام شروع کیا ہے اور اس جگہ مگرمچھ سنکچوری کے طور پر متعارف کیا جاتا ہے -
آج اس علاقے کو دیکھنے کےلیے ملک کے ہر حصوں سے لوگ آتے ہیں -
اسی طرح کشمیر کے رہنے والے سوہاس کول نے جوانوں کے تحریکی سفر سے سبق حاصل کیا اور بنگلورو میں پرنٹنگ کی نمائش لگاتے ہیں یہ پرنٹنگ گاؤں کے لوگوں کی ہی بنائی ہوئی ہوتی ہے اور پرنٹنگ بیچنے سے جو معاوضہ وصول ہوتا ہے اسی کا 80 فیصد گاؤں کی فلاح کےلیے استعمال کیا جاتا ہے- اسی طرح پینتھرا گڈھ کے جیون ٹھاکر نے اپنے گاؤں کو مثالی گاوں بنانے کا کام شروع کردیا ہے- جوانوں کو اس طرح کے لوگوں سے ملوایا جاتا ہے- ان کےچیلینج پوچھے جاتے ہیں۔
تحریر: ہریش بِشٹ
مترجم: ہاجرہ نور احمد زریابؔ
کامیابی کی منزل تک پہنچنے والے ایسے ہی حوصلہ مند افراد کی کچھ اور کہانیاں پڑھنے کے لئے ’یور اسٹوری اُردو‘ کے فیس بک پیج (FACEBOOK ) ... پر جائیں اور ’لائک‘ کریں۔