نابینا بساتی کے کروڑ پتی صنعتکار بننے کی کہانی

اگر دنیا نہیں دیکھ پاؤ گے تو کیا ہوا؟ کچھ ایسا کرو کہ دنیا تمہیں دیکھے

 نابینا بساتی کے کروڑ پتی صنعتکار بننے کی کہانی

Thursday October 15, 2015,

11 min Read

بھاویش بھاٹیہ پیدائشی نابینا نہیں تھے۔ بڑا ہونے تک ان کی آنکھوں میں تھوڑی روشنی تھی۔ ریٹنا مسكلر ڈٹیرئشن نامی بیماری سے متاثر بھاویش کو پتہ تھا کہ ان کی نظر وقت کے ساتھ ساتھ کمزور پڑتی جائے گی۔ جب وہ 23 سال کے تھے تو ان کی آنکھوں کی روشنی مکمل طور چلی گئی، وقت نے انہیں کائی محلت نہیں دی۔

image


وہ اس وقت ہوٹل منیجر کے طور پر کام کر رہے تھے اور اپنی کینسر سے متاثر ماں کے علاج کے لئے پیسے جمع کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اپنی ماں کو بچانے کی کوشش محض بیٹےکی محبت نہیں تھی،ک بلکہ وہ ماں ان کےاپنے وجود کے کافی اہمیت رکھتی تھیں۔ انکی زندگی کے لئے ہمت تھی۔

45 آج سالہ بھاویش یاد کرتے ہیں، 

"اسکول میں مجھے بری طرح تنگ کیا جاتا تھا۔ ایک دن گھر واپس لوٹنے کے بعد میں نے ماں سے کہا کہ میں اگلے دن سے اسکول نہیں جاؤں گا۔ تمام بچےمل مجھے 'اندھا ، اندھا ' چلا تے ہیں اور طعنے مارتے ہیں۔ اس دن ماں نے میرا سر سہلاتے ہوئے کہا کہ لڑکے بے رحم نہیں ہیں۔ وہ تمہارے دوست بننا چاہتے ہیں، لیکن تم ان سے اتنے الگ رہتے ہو اسلئے وہ تم سے دور رہتے ہیں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ تنگ کرنا تمہاری توجہ اپنی طرف مبزول کرنے کا ان کا طریقہ ہے۔ میں بہت مشکل سے ان کی بات کا یقین کر پایا۔ اگلے دن، تنگ کرنے کی کوششوں کے باوجود میں نے ان لڑکوں سے دوستی کی پیشکش کی اور ہم لوگ زندگی بھر کے لئے دوست بن گئے۔"

وہ بتاتے ہیں، "زندگی کا یہ پہلا سبق میرے کاروبار کا بھی اصول بن گیا۔ میری غربت اور کمزوری نے میرے سامنے بہت زیادہ چیلنجز رکھے تھے، لیکن ماں کی رہنمائی کی وجہ سے ہی میں صحیح فیصلے کر پایا۔"

ماں کو کھونے کا خدشات کے دروران آنکھوں کی روشنی چلی جانا ان کے لئے کسی گہرے صدمے سے کم نہ تھا۔ انہیں نوکری سے نکال دیا گیا۔ ان کے والد صاحب ان کی ماں کے علاج پر اپنی ساری جمع پونجی پہلے ہی خرچ کر چکے تھے۔ انہیں اس بات کا غم رہا کہ وہ اپنی ماں کی صحیح دیکھ بھال نہیں کر سکے تھے۔ لہذا جلد ہی وہ چل بسیں۔

بھاویش بتاتے ہیں،"میں ان کے بغیر اكیلا ہو گیا تھا۔ انہوں نے میری بقا کو یقینی بنانے کے لئے انتھک محنت کی تھی۔ میں بلیکبورڈ نہیں پڑھ پاتا تھا۔ وہ میرے اسباق کو مجھے یاد کرانے کے لئے گھنٹوں محنت کرتیں۔ ان کا یہ رویہ میرے پوسٹ گریجویشن کرنے تک جاری رہا۔ "

بھاویش ان کے لئے خود کو قابل قدر کچھ بننا چاہتے تھے۔ لیکن اس سے پہلے ہی ماں کا چلا جانا انہیں دنیا کا سب سے بڑا ظلم محسوس ہوا۔

image


بھاویش اپنی ماں، اپنی نظر اور کام تینوں سے محروم ہو گئے تھے.اس دکھ سے وہ ٹوٹ گئے تھے، لیکن جس چیز نے انہیں تسلی دی، وہ اپنی ماں کی طرف سے ملے بہترین مشورے تھے۔ ''انہوں نے مجھ سے کہا تھا، اگر دنیا نہیں دیکھ پاؤ گے تو کیا ہوا؟ کچھ ایسا کرو کہ دنیا تمہیں دیکھے۔"

ماں کے اسی مشورے پر عمل کجتے ہوئے بھاویش مایوسی کو اپنے پاس پھٹکنے نہیں دیا. دنیا کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی دھن نے انہیں خاموش بیٹھنے نہیں دیا، 'کچھ بہتر' کی تلاش جاری رہی۔

اس چیز کو تلاش کرنا مشکل نہیں تھا۔ "بچپن سے ہی میری دلچسپی اپنے ہاتھوں سے چیزیں بنانے میں تھی۔ میں پتنگیں بنایا کرتا تھا، مٹی کے استعمال سے کئی چیزیں بنائی تھیں، کھلونے اور چھوٹے مجسمے وغیرہ گڑھا کرتا تھا۔ میں نے موم بتی بنانے کا فیصلہ کیا، کیونکہ اس میں میرے لئے سائز اور خوشبو کی تمیز کو استعمال کرنے کی گنجائش تھی. بنیادی طور پر اس لئے بھی کہ مجھے روشنی سے دلچسپی تھی۔''

بھا ویش کے پاس کم کرنے کے جذبہ کے سوا کوئی وسائل نہ تھے۔ بھاویش سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ آغاز کس طرح کیا جائے۔ "میں نے 1999 میں ممبئی کے نیشنل ایسوسی ایشن آف بلائنڈ سے تربیت حاصل کی۔ وہاں ان لوگوں نے سکھایا کہ سادہ موم بتی کس طرح بنائی جاتی ہے۔ میں رنگ وخوشبو کے علاوہ اسکی ہئیت و شکل سے کھیلنا چاہتا تھا، لیکن رنگ اور خوشبو میرے بجٹ سے باہر تھے۔"

بھاویش رات بھر جاگ کر موم بتیاں بناتے تھے اور دن میں مہابلیشور کے مقامی مارکیٹ کے ایک کونے میں ٹھیلے پر فروخت تھے۔ ٹھیلا ایک دوست کا تھا اور اس نے پچاس روپے روزانہ پر استعمال کرنے کے لئے دے دیا تھا۔ ہر دن وہ اگلے دن کے لئے سامانوں کی خریداری کے واسطے پچیس روپے الگ رکھ دیا کرتے تھے۔ وہ بتاتے ہیں،'' یہ زندہ رہنے کا واحد ذریعہ تھا، لیکن میں کم سے کم اتنا تو کر پا رہا تھا جو کرنا چاہتا تھا۔

ایک خوبصورت موڑ

پھر زندگی میں ایک خوبصورت موڑ آیا، ایک غیر متوقع تبدیلی۔ ایک عورت اس ٹھیلے کے سامنے موم بتیاں خریدنے کے لئے ركی۔ وہ بھاویش نرم رویے اور متحرک ہنسی سے متاثر ہوئیں۔ وہ دوست بن گئے اور گھنٹوں باتیں کرتے رہے۔ اسے پہلی نظر کی محبت کہا جا سکتا ہے۔ اس میں دو لوگوں کے درمیان معمولی رابطہ سے بڑھ کر بھی کوئی چیز تھی، جو انہیں آپس میں جوڑتی تھی۔

ان کا نام نیتا تھا۔ بھاویش نے ان سے شادی کرنے کا ارادہ کر لیا۔ وہ بھی ان سے مل کر لوٹتے وقت ہر روز ان سے بات کرنے اور ساتھ زندگی گزارنے کے لئے سوچنے لگی۔ غریب اور اندھے موم بتی بنانے والے سے شادی کے فیصلے پر نیتا کو گھر والوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن انہوں نے پکا ارادہ کر لیا تھا اور جلد ہی وہ مہابلیشور کے خوبصورت ہل اسٹیشن میں چھوٹے سے مکان میں ان کے ساتھ زندگی جینے کی راہ پر چل پڑیں۔

بھاویش نیا برتن نہیں خرید سکتے تھے، انہیں برتنوں میں وہ موم پگھلاتے تھے، جن برتنوں میں نیتا کھانا پکاتی تھیں۔ انہیں فکر ہوتی تھی کہ اس سے شاید بیوی کے دل کو چوٹ پہنچتی ہوگی۔ لیکن وہ ان کی فکر پر ہنستی تھیں۔ انہوں نے ایک دوپہیا خریدا جس سے وہ اپنے شوہر کو موم بتیاں فروخت کے لئے شہر لے جا سکیں۔ بعد میں حالات میں بہتری آئی تو انہوں نے وین چلانا بھی سیکھا تاکہ بڑی مقدار میں موم بتیاں لے جائی جا سکے۔

بھاویش مسکراتے ہوئے کہتے ہیں، "وہ میری زندگی کی روشنی بن کر آئی۔'' 

جدوجہد کا سلسلہ 

نیتا کے زندگی میں آنے کے بعد بھاویش کے لئے جدوجہد آسان ہو گئی تھی۔ بوجھ اٹھانے کے لئے ایک ساتھی مل گیا تھا۔ بوجھ اب اتنا بھاری نہیں لگتا تھا۔

"آنکھ والے لوگ قبول کرنے کے لئے تیار نہیں تھے کہ کوئی نابینا شخص اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکتا ہے۔ ایک بار کچھ بدمعاش لوگوں نے میری ساری موم بتیاں ٹھیلے سے اٹھا کر نالے میں ڈال دیں۔ جہاں بھی میں مدد کے لئے گیا، مجھے کہا گیا، ' اندھے ہو تم بھلا کیا کر سکتے ہو؟' میں نے پروفیشنل موم بتی مینوفیکچررز اور دیگر اداروں سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کی، لیکن کسی نے مدد نہیں کی۔"

قرض سے متعلق درخواستوں کو تو سرے سے خارج ہی دیا جاتا تھا، درخواستوں پر جارحانہ ردعمل ملتا تھا۔ وہ موم بتی بنانے پر ماہرین کی مشورہ لینا چاہتے تھے، لیکن انہیں ڈانٹ پھٹکار اور ذلت کا شکار ہوتے۔

وہ بیوی کے ساتھ مال میں جاتے اور وہاں رکھے گئے مختلف اقسام کی قیمتی موم بتیوں کو چھوکر محسوس کرتے۔ بھاویش یاد کرتے ہیں کہ وہ جو بھی محسوس کرتے تھے اس کو اپنی صلاحیت بنیاد پر اس سے زیادہ بہتر قسم کی موم بتیاں بنانے لگتے۔

image


ایک دن آ ہی گیا جب انہیں ستارا بینک سے پندرہ ہزار روپے کا قرض منظور ہوا، جہاں اندھے لوگوں کے لئے ایک خاص اسکیم چل رہی تھی۔ بھاویش بتاتے ہیں کہ "اس سے پندرہ کلو موم، دو ڈائی اور پچاس روپے میں ایک wheelbarrow لیا۔ اسی کے سہارے انہوں نے کئی کروڑ روپے کا کاروبار کھڑا کر لیا۔ آج ہندوستان اوردنیا کے دوسرے ممالک میں ممتاز کارپوریٹ کسٹمران کی مومبتیاں کھریدتے ہیں اور دو سو ملازمین کی ٹیم ان کے پاس کام کررہی ہے۔

کامیابی کا واحد راز

بھاویش بتاتے ہیں، "اب، جب میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو محسوس کرتا ہوں کہ میرے قرض مانگنے پر بہت سے لوگوں نے مجھے اس وجہ انکارکر دیا کہ دنیا میں بے رحم طریقے سے کاروبار چلتا ہے۔ ہر کوئی اپنے دماغ سے سوچتا ہے، دل سے نہیں۔ میں نے محسوس کیاکہ کامیاب تجارت چلانے کا واحد راستہ دل سے سوچنا ہے۔ اس میں وقت لگے گا - کافی وقت، لیکن اگرآپ اپنے دل کے کہے کے مطابق کر رہے ہیں تو، اپنی مقرر منزل تک پہنچنا آسان ہوگا۔ "

ایک وقت ایسا بھی تھا جب بھاویش اگلے دن کے موم بتی کے لئے موم خریدنے کے لئے پچیس روپے الگ رکھ دیا کرتے تھے۔ آج سنرائز كنڈلس کمپنی 9000 ڈیزائن والی سادہ، خوشبودار اور مہک والی موم بتیاں بنانے کے لئے پچیس ٹن موم کا استعمال روزانہ کرتی ہے۔ وہ اپنا موم برطانیہ سے خریدتے ہیں۔ ان کے گاہکوں میں ریلائنس انڈسٹریز، رنبیكسی، بگ بازار، نرودا انڈسٹریز اور روٹری کلب وغیرہ کچھ اہم نام ہیں۔

سنرائز كنڈلس چلانے کے لئے نابینا لوگوں کو کام پر لگانے کے بارے میں بھاویش کہتے ہیں، "ہم لوگ اندھے لوگوں کو سکھاتے ہیں تاکہ وہ ہماری یونٹ کو محض مدد نہ کرکے کام سمجھ سکیں، جس سے کسی دن لوٹ کر اپنا کاروبار بھی کھڑا کر سکیں۔" جہاں وہ کمپنی کے تخلیقی پہلوؤں پر توجہ مرکوز کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، وہیں نیتا انٹرپرائز کی انتظامی ذمہ داریوں کی نگرانی کرتی ہیں۔ وہ انڈیپنڈنٹ بننے کے لئے نابینا لڑکیوں کو پیشہ ورانہ تربیت بھی دیتی ہیں۔

کوئی بھی سوچے گا کہ خاک سے اٹھ کر کروڑوں کا کاروبار کھڑا کرنے میں، خاص کربھاویش کو جن چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا اسے دیکھتے ہوئے، ان کا سارا وقت اسی کام میں لگ جاتا ہوگا۔ لیکن وہ ایک فطری کھلاڑی ہیں اور اپنی صلاحیتوں کو پیشہ ورانہ طریقے سے تراشنے کے لئے وہ کافی محنت کرتے ہیں۔بھاویش کہتے ہیں، "میں بچپن سے ہی کھیل کود میں سرگرم رہتا تھا۔ میرا ماننا ہے کہ اندھے پن کا مطلب جسم سے کمزور ہونا نہیں ہے۔ مجھے اپنے كھلاڑی ہونے پر فخر ہے۔" سنرائز كنڈلس قائم کرنے کے دوران جب تک وہ کھیل کود سے دور رہے لیکن اب جب کاروبار اپنے پھل پھول پر ہے، انہوں نے کھل کو اپنی روز مرہ کی سرگرمیوں میں شامل کر لیا ہے۔

"موم بتی کا کاروبار جمع لینے کے بعد میں نے پھر سے کھیلوں (شارٹ پٹ، ڈسکس، اور جولن تھرو) کی پریکٹس شروع کر دی۔ پیارا اولپك کھیلوں میں کل 109 میڈل میرے پاس ہیں۔ ریاض کے دوران میں روز 500 ڈنڈ ما رتا ہوں، 8 کلومیٹر دوڑتا ہوں اور اپنی فیکٹری میں قائم جم کا استعمال کرتا ہوں۔ دوڑنے کے ریاض کے لئے میری بیوی 15 فٹ طویل نائلون کی رسی کا ایک سرا اپنی وین سے باندھ دیتی ہے اور دوسرا سرا مجھے پکڑا دیتی ہے۔ پھر وہ وین چلاتی ہے اور میں ساتھ ساتھ دوڑتا ہوں۔ "

"لیکن دوستو،" وہ مسکراتےہوئے کہتے ہیں، "مجھے ان سے ڈر لگتا ہے۔ اگر کسی دن میں ان سے تیز آواز میں بات کرتا ہوں تو دوسرے دن وہ وین کی رفتار بڑھا دیتی ہیں۔"

خواب، مقصد اور مستقبل

بھاویش برازیل میں ہونے والے پیارا اولپك 2016 میں حصہ لینے کی تیاری کر رہے ہیں ۔ وہ ایک اور عالمی ریکارڈ بنانے کے لئے پرعزم ہیں۔

"دنیا میں 21 میٹر کی بلند ترین موم بتی بنانے کا ریکارڈ جرمنی کے نام ہے۔ میرا منصوبہ ایسی بلند موم بتی بنانے کا ہے۔ گزشتہ اپريل میں ہم لوگوں نے ایک نیا کام شروع کیا ہے - مسٹر نریندر مودی جی، مسٹر امیتابھ بچن، سچن تندولکر اور 25 دیگر نامور افراد کی موم کےمجسمے بنانے کا۔"

بھاویش کہتے ہیں کہ انہوں نے جو ہدف مقرر کئے ہیں، ان کو حاصل کر لینے پر ہی اطمینان ملے گا۔

"میرے بہت سے خواب ہیں، اور بھی کئی ہدف ہیں۔ میں ماؤنٹ ایورسٹ پر چڑھنے والا دنیا کا پہلا اندھا آدمی بننا چاہتا ہوں۔ میں اپنے ملک کے لئے برازیل میں ہونے والے پیارا اولپك 2016 میں گولڈ مڈل جیتنا چاہتا ہوں۔ لیکن سب سے بڑھ کر، میں اس بات کو یقینی کرنا چاہتا ہوں کہ ہر نابینا ہندوستانی اپنے پاؤں پر کھڑا ہو۔"

ہمارے روزنامہ نیوزlettٹر کے لئے سائن اپ کریں