جب سوال آدھی آبادی کا ہو تو سننی پڑے گی ضمیر کی آواز

جب سوال آدھی آبادی کا ہو تو سننی  پڑے گی ضمیر کی آواز

Monday October 12, 2015,

4 min Read

سماجی مسائل پرآواز اٹھانے کے پاداش میں اس نوجوان کا اغوا کر لیا گیا، لیکن اس کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔ یہ بہادر نوجوان اغوا کاروں کے چنگل سے نکلنے میں کامیاب رہا اور اسی وقت اپنی زندگی خواتین کی ترقی اور انہیں بااختیار بنانے کے لئے وقف کرنے کا فیصلہ لیا۔ کندن کی جانب سے شروع کی گئی تحریک 'آتما کی آواز' آج ملک بہر میں سراہی جا رہی ہے۔

یہ واقعیہ سن2004 کا ہے۔ آئیے آپ کو ملاتے ہیں 25 سالہ کندن شریواستو سے۔ ركسول، چمپارن بہار میں پیدا ہوئے پیشے سے انجینئر کندن ملک کے سب سے نوجوان اور کم عمر سماجی خدمتگار کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ کندن کو قابل ستائش کام کے لئے بشمول 'یونیورسل ہيومانیٹی' اور 'پيٹھادھيش' کئی اعزازات انعامات و اکرامات سے نوازا گیا ہے۔

image


کندن اپنے ماضی کو یاد کرتے ہوئے آپنی زندگی کے دلچسپ واقعات کو کچھ یوں بيان کرتے ہیں، "چونکہ میں نے تعلیمی نظام پر قابض بیوروکریسی اور مافیا کے خلاف ایک مہم شروع کر دی تھی اس وجہ سے انہوں نے میرا اغوا کروا لیا تھا۔ میں سات دنوں تک ان مجرموں کے چنگل میں قید رہا۔ مجھے امید نہیں تھی کہ میں بچ بھی سکوں گا، لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری اور ان سات تکلیفدہ دنوں کے بعد میں نے ان کی قید سے فرار ہونے میں کامیابی حاصل کی۔ حالانکہ فرار ہوتے وقت میرے ایک پاؤں میں گولی لگنے سے میں زخمی ہو گیا تھا۔اس واقعہ نے زندگی میں ایک نیا موڑآیا۔ گھر واپس پہنچ کر میں نے یہ محسوس کیا کہ اس اس اچھے مقصد کے لئے اس جنگ کو جاری رکھنا کتنا اہم ہے۔ ہو سکتا ہے کہ میں ہار مان لیتا، لیکن اس واقعہ نے میرے ارادوں کو اور مضبوط کر دیا۔"

کندن نے اپنی تعلیمی سلسلہ کو جاری رکھا اور انجینئرنگ کی تعلیم مکمل کی۔ وہ بتاتے ہیں- "یہ میرے لئے انتہائی اہم تھااور میرے اغوا کے اگلے سال میں نے اپنی تعلیم مکمل کر لی۔ اس دوران میرے چھوٹے بھائی کی کینسر سے موت ہو گئی اور ان سب کے دوران میرے سماجی کاموں اور تعلیم کے میدان میں میری مصروفیات نے آگے بڑھتےرہنے میں میری مدد کی۔''

کندن نے اپنے گاؤں کے استحصال اور محروم طبقات کے بچوں کے لئے تعلیمی نظام مین بہتری لانے اپنی ان کوششون کو جاری رکھا اور اس کے بعد وہ دہلی چلے گئے۔ وہاں '91'موبائلس "نامی ایک کمپنی میں سافٹ ویئر انجینئر کے طورپرکام کرنے لگے۔ خاندان کی کفالت کے لئے یہ انتہائی ضروری تھا۔دہلی میں خواتین پر ظلم و ستم کی وارداتوں کے بارے میں ان کی معالومات میں اضافہ ہوا۔ انہی حالات کے مد نظرکندن نے اس موضوع پر کچھ کرنے کا فیصلہ کیا۔ 'بی ان ہيومانیٹی فاونڈیشن' قائم کی۔آج یہ فاونڈیشن نوجوانوں کی طاقتور تنظیم ہے، جو ہر طبقے اور شعبےکی خواتین کو با اختیار بنانے کے لئے کام کر رہی ہے۔ نوجوانون کی طرف سےقایم یہ تنظیم ایک آزاد ادارہ ہے۔

image


کندن بتاتے ہیں- "ہم کسی قسم کاعطیات نہیں لیتے بلکہ اپنی کمائی کے کچھ حصہ سے سماجی خدمت کرتے ہیں۔" اس ادارے کے ذریعہ کندن نے نہ صرف خواتین کے خلاف ہونے والے مظالم کے خلاف آواز بلند کی ہے، بلکہ ان خواتین کی بازآبادکای کرنے کام بھی کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عصمت ریزی، ایسڈ اٹیاک، چھیڑ چھاڑ اور جہیز ہراسانی، جنسی استصحال جیسے جیسے جرائم سے متاثر خواتین کی مدد کے لئے ابھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔ ایسے حالات پیدا کئے جانے چاہئےکہ خواتین معاشرے میں باعزت طریقے سے ان کی جی سکیں۔زندگی کے دیگر فعال شعبوں میں ان کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے، اس کے علاوہ تنظیم کا ایک اور منصوبہ ہے جس کا نام 'آتما کی پکار'، اس منصوبہ کے تحت ان جرائم کو روکنے کے لئے سماجی مسائل کی شناخت کرنا اور

تبدیلیوں کے راستے ہموار کرنا ہے۔ اس عنوان سے ملک کے مختلف حصوں سے مقررین کو دعوت دی جاتی ہے، جو لوگوں کو ذہنی صدمے، اور اسی طرح کے دیگر موضوعات پر آگاہ کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں،''اگر اپنے ملک سے اس قسم کے جرائم کو ختم کرنا ہو تو اسے جڑ سے ختم کرنا ہوگا۔ اس کے لئے ہمیں نوجوان طبقے کی ذہنیت مین تبدیلی لانے پر اپنی توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔ ان کی تنظیم کےاراکین اس کام کی انجام دہی کے لیے مختلف اسکولوں میں جاتے ہیں اور جسمانی صحت اور صفائی اور اسی طرح کے دیگر موضوعات پر بچوں کی رہنمای کرتے ہیں۔ "

کندن نے حال ہی میں ایک کتاب بھی لکھی ہے، جس کا نام ہے "ٹائٹل از ان ٹائٹلڈ"۔ یہ کتاب معاشرے میں تعلیمی مسائل پر بے حسی اور خواتین کو بااختیار بنانے میں رہنمای کرتی ہے۔کندن کی یہ کہانی ہر شخص کو اس ذمہ داری کو قبول کرنے کا سبق دیتی ہے۔ سب اپنی ذمہ داری کو سمجھیں گےتو صحیح معنون میں مہذب سماج کا قیام ممکن ہو سکےگا۔