بندیشور پاٹھک کی کوششوں کا نتیجہ... عام آدمی کے لئے سہل 'سلبھ ' بیت الخلاء

بندیشور پاٹھک  کی کوششوں کا نتیجہ...  عام آدمی کے لئے سہل 'سلبھ '  بیت الخلاء

Monday October 19, 2015,

9 min Read

گاندھی جی کی زندگی اور ملک و قوم پر ان کے احسان کی بارے میں پورا عالم جانتا ہے۔ مہاتما گاندھی کے خیالات اور فلسفہ نے نہ جانے کتنے لوگوں کو متاثر کیا، جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ان میں ایک بڑا نام ہے ڈاکٹر بندیشور پاٹھک کا۔ جی ہاں، سلبھ ا نٹرنیشنل کے بانی بندیشور پاٹھک مہاتما گاندھی سے بہت زیادہ متاثر رہے ہیں۔ گاندھی جی کی یہ بات نے کہ پہلے ہندوستان کو صاف کرو، آزادی ہم بعد میں حاصل کر سکتے ہیں، انہیں خاصا متاثر کیا اور وہ گاندھی جی کے صفائی مشن سے جڑ گئے۔ اس سمت میں بہت کام کیا۔ بہت سارے ایجادات کئے۔ تقریبا 44 سال پہلے نئی اور اعلی درجے کی مقامی تکنیک ایجاد کی جو سلبھ شوچالیہ (سہل بیت الخلاء) کے نام سے مشہور ہے۔ بندیشور پاٹھک جان ایف۔ کینیڈی سے بھی خاصے متاثر رہے ہیں۔ کینیڈی نے ایک بار کہا تھا کہ- یہ مت پوچھو کہ ملک نے تمہارے لئے کیا کیا ہے، بلکہ یہ پوچھو کہ تم نے اپنے ملک کے لئے کیا کیا۔ ہندوستان میں کھلی جگہ میں بیت الخلاء کا مسئلہ آج بھی بڑا مسئلہ ہے ایسے میں سمجھا جا سکتا ہے کہ جب بندیشور پاٹھک نے اپنی جوانی میں اس سمت میں کام کرنا شروع کیا ہوگا، اس وقت یہ کتنا بڑا مسئلہ رہا ہوگا ۔

آج بندیشور پاٹھک کے کام سے تمام لوگ واقف ہیں۔ پدم بھوشن جیسا بڑا ا یوارڈ انہیں مل چکا ہے، لیکن بندیشور پاٹھک کے لئے یہ راستہ بہت مشکلات بھرا رہا ہے۔ کیونکہ یہ وہ وقت تھا جب ملک ذات پات کی بندشوں میں جکڑا ہوا تھا۔ ایسے میں ایک برہمن خاندان میں پیدا ہوئے بندیشور پاٹھک کے لئے صرف گھر کے باہر معاشرے میں کام کرنا مشکل نہیں تھا بلکہ گھریلو محاذ پر بھی اس بات کو ثابت کرنا تھا کہ جس سمت میں وہ آگے بڑھ رہے ہیں وہ بہت مشکل کام ہے اور مستقبل میں بہت بڑی تبدیلی لے کر آئے گا۔

image


بندیشور پاٹھک کی پیدائش بہار کے ویشالی ضلع کے رام پور گاؤں میں ہوئی - ان کے دادا مشہور نجومی تھے ا ور والد آیور وید کے ڈاکٹر- ایک امیر خاندان جہاں گھر میں نو کمرے تھے اپنا کنواں تھا لیکن بیت الخلاء نہیں تھا۔ بیت الخلاء کے لئے باہر جانا ہوتا تھا۔ گھر کی تمام خواتین کو صبح چار بجے اٹھ کر سورج طلو ع ہونے سے پہلے روز مرہ کے کام سے فارغ ہوجانا تھا۔ گھر کی بہت سی خواتین کو دن بھر سر میں درد کی شکایت رہتی تھی، چونکہ دن بھر پیشاب روک کر رکھنا ہوتا تھا۔ کھلے میں باہر جا نہیں سکتی تھیں۔ اس طرح بچپن سے ہی گھر میں اور گاؤں میں پکا بیت الخلاء نہ ہونے سے کس قسم کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ بہت اچھی طرح جانتے تھے۔ اس کے علاوہ اس وقت ذات پات کا نظام اس قدر معاشرے میں پھیلا ہوا تھا کہ معاشرہ ایک ہوتے ہوئے بھی کئی ٹکڑوں میں بٹا ہوا تھا۔ ایک بار نادانستہ طور پر بندیشور پاٹھک نے ایک دلت کو چھو لیا تھا جس پر گھر میں ہنگامہ ہو گیا اور بندیشور کی دادی نے گوبر، گنگا جل اور گوموتر ( گاۓ کا پیشاب) ان کے منہ میں ڈال کر ان کی پوترا کرایا تھا۔ یہ واقعہ بھی ان کے دل و دماغ میں گہرا اثر کر گئی۔ یہ ذاتی انفرادیت انہیں بہت پریشان کرتی تھی۔ بے شک اس وقت معصوم بندیشور کو اس بات کا احساس نہیں تھا کہ آگے چل کر وہ اس مسئلہ کا ایک بہت مضبوط حل نکال کر ملک کے آگے رکھ دیں گے۔

پہلے بندیشور پاٹھک کو بھی ٹھیک سے پتہ نہیں تھا کہ وہ کس سمت میں مستقبل بنائیں گے، کیا کرنا چاہتے ہیں؟ کئی طرح کے خیالات تھے جو وقت- وقت پر تبدیل ہوتے رہے، لیکن ایک بات واضح تھی کہ وہ کوئی ایسا کام کرنا چاہتے تھے جسے عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ اس لئے انہوں نے محسوس کیا کہ لیکچرر بننا ہی زیادہ بہتر ہے اور اپنی تعلیم پر توجہ دینے لگے۔ انہوں نے بی اے سماجیات میں اور ایم اے کرائم سائنس میں کیا۔ وہ اس موضوع میں مہارت حاصل کرنا چاہتے تھے لیکن اول نہیں آ سکے - اس موضوع پر ریسرچ کرنے کا ان کا خواب ٹوٹ گیا۔ یہ ایک طرح سے ان کی زندگی کا اہم موڑ بھی تھا، کیونکہ اب ایک کے بعد ایک ان کی زندگی میں بہت سے بدلاؤ آتے جا رہے تھے کہ وہ خود سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ آگے کیا ہوگا؟ اس دوران انہوں نے تعلیم بھی حاصل کیا اور آیورویدک دوائیں بھی بیچی- پھر ذہن میں بزنس کرنے کا خیال آیا لیکن اس وقت معاشرے میں ایک کاروباری کی خاص عزت نہیں تھی۔ اور بندیشور پاٹھک ایسا کام کرنا چاہتے تھے جس میں انہیں پیسے کے ساتھ ساتھ عزت بھی ملے۔ اس لئے بزنس بھی چھوڑ دیا۔ پھر انہوں نے اپنے پرانے خواب کو پورا کرنے کا من بنایا اور کرائم سائنس میں آگے کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے ساگر یونیورسٹی میں درخواست کی اور ان کا انتخاب بھی ہو گیا، لیکن کہتے ہیں نہ ہوتا وہی ہے جو قسمت کو منظور ہوتا ہے۔ قسمت انہیں پٹنہ لے گئی جہاں انہوں نے گاندھی پیغام کمیٹی نام کی ایک ذیلی کمیٹی میں کام کیا۔ کچھ وقت بعد ان کا تبادلہ صفائی کے سیکشن میں ہو گیا۔ جہاں وہ گاندھی جی کے خواب کو پورا کرنے کے کام میں لگ گئے۔ اس وقت پاخانہ ہٹانے کے لئے ' بالٹی' بکٹ ٹائلٹ استعمال کیا جاتا تھا، جس کا متبادل تلاش کرنا بہت ضروری تھا۔ ساتھ ہی جس برہمن طبقے سے وہ آئے تھے وہاں بھی ان کی مخالفت ہو نے لگی ۔ صرف برہمن سماج ہی نہیں بلکہ گھر پر بھی سخت مخالفت ہونے لگی۔

ایسے غیر معمولی حالات میں بھی ان کے قدم نہیں ڈگمگائے۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ بیشک آج ان کی مخالفت ہو رہی ہے لیکن اگر وہ اپنے کام میں کامیاب ہو گئے تو یہ معاشرے کے لئے بہت بڑی تبدیلی ہو گی- اس لئے انہوں نے معاشرے سے مل رہے طعنوں کی پرواہ نہیں کی اور پاخانہ ڈھونے کا متبادل تلاش کرنے لگے۔ اس کے لئے انہیں سب سے پہلے اس کمیونٹی کے ساتھ میل جول بڑھانا تھا جو صفائی کے کام سے جڑے ہوئے تھے، تاکہ پاخانہ ڈھونے والوں کے مسائل کو گہرائی سے سمجھ سکیں۔ انہوں نے اسی بستی میں کمرہ لے لیا اور کام کرنے لگے۔ اس دوران انہوں نے ڈبلیو ایچ او کی طرف سے شائع کتاب اكسكريٹ ڈسپوز ل ان رورل ایریا اینڈ اسمال کمیونٹیز اور راجندر لال غلام کی کتاب جو کہ بہتر ٹائلٹ نظام کے شکل پر لکھی گئی تھی، وہ بھی پڑھی۔ ان دونوں کتابوں نے بندیشور پاٹھک کے دماغ میں اٹھ رہے سوالوں کو کافی حد تک دور کرنے میں مدد کی۔ بندیشور پاٹھک ایسی تکنیک چاہتے تھے جس میں کم لاگت آئے اور پانی بھی کم خرچ ہو۔ جلدی بن جائے ساتھ ہی کہیں بھی بنایا جا سکے۔ اسی خیال کے ساتھ سلبھ تکنیک کا ایجاد ہوا۔ سلبھ دو حصوں میں بنا ہے۔ پہلے میں فلش کرنے کے بعد پاخانہ کھاد کی شکل میں بیت الخلا میں جاکر جمع ہو جاتا ہے۔ یہ ایک ڈھلان والا ٹائلٹ پین ہے جس کی صفائی بہت آسان ہے۔ بس ایک مگ پانی سے اسے صاف کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے کسی گٹر لائن کی ضرورت نہیں ہوتی۔ پہلے پٹ میں موجود پاخانہ زر خیز کھاد میں بدل جاتا ہے۔ نہ اس میں بدبو ہوتی ہے نہ کیڑے اور نہ ہی اس کو ہاتھ سے صاف کرنے کی ضرورت ہوتی ہے

شروع میں اس ڈیزائن کو تیار کرنے میں بندیشور پاٹھک کو دو سے تین سال کا وقت لگا۔ اس کے بعد وقت -وقت پر وہ اس میں بہتر ی کرتے چلے گئے۔

پہلے جب بندیشور پاٹھک نے اپنے منصوبے کو حکومت کے سامنے رکھا تو کسی کو یقین نہیں ہو رہا تھا کہ یہ کامیاب ہو سکتا ہے۔ انہیں اپنے منصوبے کو سمجھانے میں پہلے بہت محنت کرنی پڑی۔ بہت سارے انجینئروں کو بھی لگا کہ بندیشورتو انجینئر نہیں ہیں اس لئے انہوں نے ان کی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ لیکن بندیشور پاٹھک کی محنت رنگ لائی اور سن 1970 میں بہار میں سلبھ بیت الخلا بنانے کے لئے منظوری مل گئی۔ پھر بندیشورنے سلبھ نام سے اپنا ادارہ بھی کھول دیا ۔ بندیشور پاٹھک کا خیال کامیاب رہا۔ آگے چل کر حکومت کی جانب سے بھی انہیں حوصلہ افزائی ملنے لگی ۔ بندیشور پاٹھک نے ڈیزائن بنانے کے ساتھ- ساتھ سلبھ بیت الخلاء کی تعمیر بھی شروع کر دی ، لیکن فنڈ کے لئے انہیں بہت زیادہ انتظار کرنا پڑتا تھا - جتنا فنڈ مانگا جاتا تھا اتنا نہیں ملتا تھا جس کی وجہ سے کام اس تیزی سے نہیں ہو پا رہا تھا جتنا ہونا چاہئے تھا۔ پھر رامیشور ناتھ جی جو کہ ایک آئی اے ایس افسر تھے، انہوں نے بندیشور پاٹھک کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے اس کام کے لئے سرکاری گرانٹ کے بھروسے نہ رہیں اور جو کام کر رہے ہیں اسی کا پیسہ لیں۔ اس سیکھ کو بندیشور پاٹھک نے اپنا لیا اور بیت الخلا تنصیب کے لئے وہ فی پروجیکٹ پیسے لینے لگے اور ٹوائلٹ کے رکھ رکھاؤ کے لئے استعمال کرنے والوں سے فیس لینے لگے۔ اس سے فائدہ یہ ملا کہ سلبھ اب اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل ہو گیا۔

اپنے اس کامیاب تجربہ کی وجہ سے آج سلبھ انٹرنیشنل بین الاقوامی شہرت حاصل ادارہ ہے۔ٹائلٹ کی تعمیر آج بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ جس کے لئے حکومت صفائی مہم بھی چلا رہی ہے۔ مسلسل لوگوں کو گھروں میں بیت الخلا بنانے اور استعمال کرنے کے لئے مشورہ بھی دیا جا رہا ہے۔ اسی کام کو تو بندیشور پاٹھک سالوں سے کرتے آ رہے ہیں۔ سماج کو دئے انمول تعاون کے لئے بندیشور پاٹھک کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر کئی ایوارڈ بھی مل چکے ہیں۔ جس میں انرجی چلوب ایوارڈ، پريدرشني ایوارڈ، دبئی بین الاقوامی ایوارڈ، اکشے ارجا ایوارڈ اور حکومت ہند کی جانب سے پدم بھوشن ایوارڈ شامل ہیں۔

FACE BOOK


کچھ اور کہانیاں پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں........

ضلع مجسٹریٹ بن گئے بچوں کے مسیحا

کیوں نہ آپ بھی شروع کریں اسٹارٹپ!

نوجوانوں میں تبدیلی کی تحریک ... پرکھرکی کوشش