والد سے کچھ الگ کردکھانے کا عزم ... میگھنا گھئی فلمسازی اور ہدایتکاری کے میدان میں

والد سے کچھ الگ کردکھانے کا عزم ... میگھنا گھئی فلمسازی اور ہدایتکاری  کے میدان میں

Saturday November 07, 2015,

9 min Read

وہ ایک ایسی خاتون ہیں، جن کے والد کو ہندوستانی فلم انڈسٹری میں 'شومین' کے طور پر جانا جاتا ہے۔ جنہوں نے کھلنائک، قرض، ہیرو اور رام لکھن جیسی فلموں کے ساتھ کئی دہائیوں تک شائقین کو تفریح کا سامان مہیا کیا ہے۔ مگر جب ان کی بیٹی میگھنا گھئی نے اپنے کریئر کی شروعات کی تو اداکاری انہیں راس نہیں آئی۔ میگھنا ایک تربیت یافتہ مواصلاتی، اشتہاراتی اور مارکٹنگ پیشہ ور ہیں اور انہوں نے سبھاش گھئی کی کئی فلموں جیسے پردیس، تال اور یادیں کی مارکٹنگ میں اپنے والد کی مدد کی ہے۔

image



حالانکہ انہیں اداکاری میں کوئی دلچسپی نہیں تھی لیکن بالی ووڈ ان کے خون میں ہے۔ لہٰذا جب سبھاش گھئی نے فلم اسکول شروع کرنے کے اپنے خواب کو عملی شکل دینے کا ارادہ کیا تو انہوں نے میگھنا کو اس کی ذمہ داری سونپی اور انہیں اس کو سنبھالنے کے لئے برطانیہ سے ہندوستان واپس بلالیا۔ اور دیکھئے، آج میگھنا اس شعبے میں ایک بڑا نام بن چکی ہیں۔

'یوئر اسٹوری' کے ساتھ ہوئی ان کی ملاقات کے دوران ان کے اب تک کے سفر کے بارے میں کی گئی گفتگو کےکچھ اہم حصے قارئین کے پیشِ خدمت ہیں:

آغاز:

میگھنا بتاتی ہیں کہ ان کو ابتداء ہی سے یہ احساس تھا کہ وہ تخلیقی صلاحیت کی حامل نہیں ہیں اس لئے انہوں نے تخلیقی سرگرمیوں سے خود کو دور رکھا۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اداکاری کو اپنا پیشہ نہیں بنایا۔ دریں اثناء ایک روز اچانک ان کے والد نے ایک فلم اسکول شروع کرنے کی بات کی اور انہیں اس ذمہ داری کو سنبھالنے کے کہا۔ اس بات سے پرجوش میگھنا کو یہ ایک اچھا موقع لگا۔ وہ کہتی ہیں،" مجھے اس فلم اسکول کا بانی بنانے کا فیصلہ خود شبھاش گھئی صاحب کا سوچا سمجھا فیصلہ تھا۔ میرے والد نے کہا کہ اگر تمہیں کچھ سمجھ میں نہ آئے تو کوئی بات نہیں، لیکن مجھے لگتا ہے کہ اس فلم اسکول میں تمہیں ہی فردِ اول ہونا چاہیےکیونکہ مجھے یقین ہے کہ تم اپنے بچے کی طرح اس کا خیال رکھوگی۔"

یہ 2000 کی بات ہے اور اس کے ایک سال بعد وہ اپنے وعدے کے مطابق ہندوستان لوٹ آئیں۔ 2001 میں جب فلم اسکول کا سنگِ بنیاد رکھا گیا، تب سے آج تک میگھنا 'وِسلنگ ووؑڈس انٹرنیشنل' کا حصہ ہیں۔ اس کے بعد، اگلے پانچ برس میں میگھنا نے 'وسلنگ ووڈس انٹرنیشنل' کی مرکزی ٹیم کے ساتھ اپنے ادارے کے لئے بہت کچھ سیکھا۔ انہوں نے دنیا بھر کی کئی یونیورسٹیوں، کالجوں اور فلم اسکولوں کا دورہ کیا۔ انہوں نے نصاب تیار کرنے کے ساتھ ساتھ کالج انتظامیہ کی کارکردگی اور فعالیت کو سمجھنے کے لئے مختلف فلم اسکولوں کے پروگراموں میں حصہ لیا۔

اس ادارے کو کیمپس تیار کرنے میں تین برس کا عرصہ درکار ہوا۔ "ہمارا کیمپس بہت بڑا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ امریکہ کے ایک بہترین فلم اسکول کے ڈین نے بتایاتھا کہ فلم اسکول کے لئے ہمیں ہمیشہ زیادہ جگہ درکار ہوتی ہے، کیوںکہ ہم ہر سال کوئی نیا نصاب شروع کریں گے اور تب سب سے زیادہ دِقت ہمیں جگہ ہی کی پیش آئے گی اس لئے ہم اسے شروع ہی سے بڑا بنا نا چاہتے تھے۔ "

نصاب تیار کرنےکے لئے ہم نے ملکی اور بین الاقوامی ماہرین سے مشاورت کی جس میں مختلف شعبہ جات کے لوگ شامل تھے۔ نصاب تیار کرنے میں کچھ دیگر لوگ جیسے شیکھر کپور، منموہن شیٹی، آنند مہندرا اور شیام بینیگل جیسے ماہرین سے بھی مشاورت کی گئی۔ سی بی ایس ای بورڈ 11 اور 12 جماعت کے طلباء کے لئے میڈیا سے متعلق کورس شروع کرنا چاہتا تھا۔ اس مضمون کے لئے نصابی مواد کی تیاری کے لئے انہوں نے ہم سے رابطہ قائم کیا ہے۔ میگھنا کہتی ہیں،"ہم نے ایسا نصاب تیار کیا ہے جس میں تخلیقی فن، تھیئٹر اور اسٹیج ڈرامہ، ان سب کو میڈیا مطالعہ کے مضمون میں شامل کیا گیا۔ ہم ہر طالبِ علم سے فلمساز بننے کی امید نہیں رکھتے لیکن ہم ایسا نصاب وضع کرنا چاہتے ہیں جس کے مطالعے کے بعد وہ صحیح معنوں میں فلموں کا تجزیہ کرسکے۔"

کامیابیاں اور چیلینجز:

یہ اسکول ابتداء میں محض 70 طلباء کے بیچ کے ساتھ شروع کیا گیا اور آج اس کے کیمپس میں تقریباً 400 طلباء زیرِ تعلیم ہیں۔ تا حال ایک ہزار سے زیادہ طلباء نے یہاں سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی ہے اور اس صنعت میں کام کر رہے ہیں۔ اسکول کا اقتصادی شعبہ ابتداء ہی سے مثبت رہا اور 2013 میں اسکول نے 86۔18 لاکھ روپئوں کا کاروبار کیا تھا۔ اسی کے ساتھ ' دی ہالی ووڈ رپورٹر' میگزین نے اپنے اگست کے شمارے میں اس دنیا کے دس بہترین فلم اسکولوں میں اس فلم اسکول کو نامزد کیا تھا۔

میگھنا کا کہنا ہے کہ ان کے اسکول کے طلباء نے فلمی صنعت میں روزگار حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ کئی فلم کمپنیوں میں جیسے دھرما پروڈکشن، ڈِزنی، یشراج فلمز اور فینٹم میں ملازمت حاصل کرنے میں بھی کامیابی حاصل کی ہے۔ ان کی اسکول کے ایک طالبِ علم موہت چھابڑا کی بنائی گئی مختصر فلم 'ربر بینڈ بال' نے کانس کارپوریٹ میڈیا اور ٹی وی اوارڈ برائے 2013 میں کئی با وقار انعامات جیتے ہیں جیسے 'سلور ڈالفن'،گولڈ میڈل، 'ڈویل گرین اوارڈ 2013،فرانس ، اور 'سٹی اسٹوریز پروجیکٹ 2012 ، لندن وغیرہ۔

اس کے علاوہ پرکاش جھا کی فلم 'ستیہ گرہ' کی فلمسازی میں بھی 'وسلنگ ووڈس انٹرنیشنل' کے طلباء کی خدمات شامل رہی یہں۔ حال ہی میں ہانگ کانگ سیاحتی بورڈ ، ہانگ کانگ، نے سیاحت کو فروغ دینےکے لئے بنائی گئی ان کی مختصر فلم کے لئے 'وسلنگ ووڈس انٹر نیشنل ' کے طلباء کا اعزاز کیا گیا۔

یوں تو آج ان کا اسکول ایک با وقار اسکول مانا جاتا ہے لیکن ابتداء میں انہیں کافی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک اچھے عملے کی تلاش کسی چیلنج سے کم نہیں تھا۔ وہ کہتی ہیں،" اس طرح کے تربیتی نصاب کے لئے آپ کو ایسے پیشہ ور افراد کی ضرورت ہوتی ہے جو اس صنعت میں کام کر رہے ہوں ورنہ طلباء کے دل میں آپ کے لئے کوئی عزت نہیں رہتی۔ لہٰذا ہمیں ایسے پیشہ ور افراد کی ضرورت تھی جو اتنے متواز ن ہوں کہ وہ ہماری فلم اسکول میں آکر تدریس کریں۔ بھلے انہیں فلم اسکول میں تدریس کا کوئی تجربہ ہو یا نہ ہو۔"

بہترین بنیادی صنعتی وسائل مہیا کروان بھی ایک چیلینج تھا جس کےلئے انہوں نے سونی کے ساتھ معاہدہ کیا اور سونی کے احاطے میں ایک سونی میڈیا سنٹر قائم کرنے میں سرمایہ لگایا۔ ساری دنیا میں لندن اور لاس انجلس کے بعد اب ممبئی میں سونی کا اس نوعیت کا تیسرا میڈیا مرکز ہے۔

طلباء اور ان کے سر پرست اس نصاب کو لے کر کافی الجھن کا شکار تھے۔ ان کو سمجھا پانا ایک مشکل کام تھا ۔ میگھنا کہتی ہیں،"ایک پوری نسل کی سوچ بدلنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اپنے بچوں کو فلم اسکول بھیجنا سرپرستوں کےلئے مشکل تھا ۔ انہیں راضی کرنے کے لئے ہم اپنے نصاب کے ساتھ ساتھ طلباء کو بی۔ایس۔سی اور ایم ۔بی۔اے کی ڈگری بھی دیتے ہیں۔ لیکن اب سرپرست اپنے بچوں کے تعلق سے مطمئن ہیں۔ ' وسلنگ ووڈس انٹرنیشنل' نے ان ڈگریوں کے لئے 'منی پال یونیورسٹی' اور 'بھارتی داسن یونیورسٹی ، تاملناڈو،' کے ساتھ معاہدہ کیا ہے۔

مستقبل کے منصوبے:

آج 'وسلنگ ووڈس انٹرنیشنل' میں فلمسازی کے علاوہ طلباء میڈیا، صحافت، فیشن اور اینی میشن سیکھ سکتے ہیں۔ 'وسلنگ ووڈس انٹر نیشنل' کی توسیع کے لئے دیگر شہروں اور ملکوں میں بھی اس کی شاخیں قائم کرنے کے لئے شراکت کی جارہی ہے۔ ملک کے شہر پونے میں اس فلم اسکول کی شاخ قائم کرنے کے لئے ڈی۔ وائے پاٹل کالج کے ساتھ معاونت کر رہاہے۔ برطانیہ میں اپنا کیمپس قائم کرنے کے لئے اس اسکول نے بریڈفورڈ کالج کے ساتھ شراکت کی ہے اور نائیجیریا میں انہوں نے افریقی فلم اور ٹی وی اکامی قائم کرنے کے لئے 'ٹرینڈ میڈیا سِٹی'سے ہاتھ ملایا ہے۔ ٹرینڈ میڈیا وہاں ایک مکمل فلم سٹی قائم کر رہی ہے۔ نائیجیریا میں فلمی صنعت کافی بڑی ہے۔ لیکن ان کی فلمیں سنیما گھروں میں نہیں دکھائی جاتیں۔ وہ براہِ راست ویڈیو کے لئے ہے۔ وہاں صلاحیتوں کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن کوئی تربیتی ادارہ نہیں ہے اس لئے وہاں 'وسلنگ ووڈس انٹر نیشنل' کی ایک شاخ قائم کی جارہی ہے۔ ہمارا مقصد فن، کاروبار ، صنعت اور شراکت کے درمیان ایک توازن قائم کرنا ہے۔ آج 'وسلنگ ووڈس انٹر نیشنل' کے ممبئی کیمپس میں دیگر ممالک سے آنے والے غیر ملکی طلباء کی تعداد قابلِ لحاظ ہے۔ یہ طلباء ہمارے یہاں 'تبادلہ طلباء پروگرام ' کے توسط سے آرہے ہیں۔

میگھنا کا ماننا ہے کہ 'وسلنگ ووڈس انٹرنیشنل' کی کامیابی کو یقینی بنانے میں ان کے والد نے اہم کردار ادا کیاہے ۔ وہ کہتی ہیں،"میں کہیں سے آکر اس صنعت میں ایسا کرنے کی کوشش کرتی تو شائد میں کامیاب نہ ہوپاتی۔ فلم انڈسٹری میں میرے والد کی مقبولیت اور اعتماد نے اس کام کے ابتداء کو آسان بنادیا۔ لیکن فلم اسکول سے ایک بڑا نام جُڑا ہونے کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ کبھی کبھی لوگ سوچتے ہیں کہ یہاں سبھاش گھئی کی طرح سنیما بنانا سکھایا جاتا ہوگا۔ "

image


اپنی حساسیت اور اسٹائل کےساتھ، میگھنا ' وسلنگ ووڈس انٹر نیشنل' کو ایک مسابقتی ادارہ بنانے کے ساتھ ساتھ کام کرنے کے لئے ایک اطمنان بخش جگہ بنانے میں بھی کامیاب رہی ہیں۔ کھُلی پالیسی اور ملازمین کو ہفت روزہ تعطیل دینے کی وجہ سے، میگھنا فلم صنعت میں رائج روایات کو توڑنے میں بھی کافی حد تک کامیاب رہی ہیں۔ ہمارے یہ پوچھنے پر کہ کیا وہ ایک مستقل ملازمت میں واپس جانا کا منصوبہ رکھتی ہیں، میگھنا نے زور سے ہنستے ہوئے کہا کہ وہ اپنے موجودہ کردار سے کافی خوش اور مطمئن ہیں۔ وہ کہتی ہیں،" مجھے یقین نہیں ہے کہ کوئی مجھے ملازمت دے گا۔ جب میں نے ابتداء کی تھی تو میرے ایک باس ہوا کرتے تھے اور میں اپنے والد صاحب کو ساری روداد بیان کیا کرتی تھی۔ اب یہاں کئی برسوں سے کوئی باس نہیں ہے ۔ اگر میں کہیں ملازمت کربھی لوں تو میرے باس کو مجھ سے ضرور دِقت ہوگی۔"

میگھنا سوچتی ہیں کہ خواتین کے لئے ہندوستان ایک بہت اچھی جگہ ہے کیونکہ یہاں خواتین کے کام کرنے کے لئے ایک مکمل معاونتی نظام موجود ہے۔ خواتین یا تو کام نہیں کرتی ہیں یا پھر مصروف رہتی ہیں۔ انہوں نے اپنے آپ کو ایک دائرے میں مقید کرلیا ہے جس سے وہ باہر آنا نہیں چاہتیں۔ وہ کہتی ہیں،"ہم ایک بریک لینا چاہتے ہیں، اگر ہم ماں بن کر اس دورانیہ کا لطف لینا چاہتی ہیں، تو ہم ہمیں ایک بریک لینا ہی چاہیے۔ لیکن خود کو کام میں مصروف رکھنے والے لوگوں کے لئے یہ ایک اچھا موقع ہوتا ہے۔ کام چاہے کیک بنانے کا ہی کیوں نہ ہو،ہر کام اچھا ہوتا ہے۔ کام در اصل میں ایک خاتون کی شخصیت کو مضبوط بناتا ہے اور خواتین کے ساتھ ساتھ ان کے خاندان کے لئے بھی ایک مثبت عزتِ نفس کا جذبہ پروان چڑھاتا ہے۔