کھلے دل سے قبول ہو تبدیلی!

دلتوں میں اب پہلے کے مقابلے زیادہ اعتماد پیدا ہو گیا ہے۔ یہ امید کی ایک کرن ہے۔ وہ پہلے کے مقابلے زیادہ روشن اور سماجی برائی کے خلاف متحد ہو گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب وہ تاریخ اور معاشرے میں اپنی مناسب جگہ حاصل کرنے کے لئے لڑائی لڑنے میں شرم محسوس نہیں کرتے۔

کھلے دل سے قبول ہو تبدیلی!

Sunday August 14, 2016,

8 min Read

میں اس وقت کافی نوجوان تھا جب میں وارانسی اور الہ آباد کے درمیان موجود مرزاپور نام کے ایک شہر میں رہتا تھا۔ میرے والد محکمہ انکم ٹیکس میں ملازمت کرتے تھے۔ ہر شام ان کا ایک چپراسی کام کے سلسلے میں ہمارے گھر آتا تھا اور ناشتے میں ہمارے ساتھ اسے بھی چائے اور بسکٹ دیا جاتا تھا، لیکن یہاں پر ایک فرق تھا اور وہ یہ تھا کہ اس کی کپ اور پلیٹ ہماری کپ اور پلیٹ سے مختلف ہوتی تھیں ۔ ہمیں سٹیل کے برتنوں میں چائے ناشتہ دیا جاتا تھا، وہیں اسے چینی مٹی کے برتن میں۔ اتنا ہی نہیں ہمارے برتنوں کو اس کے برتنوں سے الگ رکھا جاتا تھا۔ ہر شام چینی مٹی کے ان برتنوں کو صاف کر الگ رکھا جاتا تھا اور یہ معمول میں شامل تھا۔ نوجوان ہونے کی وجہ سے میرے لئے اس طرح کے رویے کو سمجھنا مشکل نہیں تھا، بلکہ میرے لئے اس کو سمجھنا کوئی بڑی بات بھی نہیں تھی۔ باوجود اس کے ایک دن تجسس میں میں نے اپنی ماں سے پوچھا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟

image


میری ماں اتر پردیش کے ایک دور دراز کے گاؤں کی رہنے والی تھی جسے پڑھنا لکھنا نہیں آتا تھا۔ اس نے بڑی معصومیت سے جواب دیا کے 'ارے وہ دلت ہیں نا'۔ بچہ ہونے کی وجہ سے میں نے اس طرف زیادہ توجہ نہیں دی، لیکن جب میں بڑا ہوا اور کالج پہنچ کر مجھے موقع ملا دنیا دیکھنے سمجھنے کا، تب مجھے احساس ہوا کہ اس بات کا کیا مطلب تھا۔ تب میں نے جانا کہ دراصل یہ ہزاروں سال پرانی ایک سوچ ہے، جسے سماج نے پانے میں جزب کر لیا ہے اور جسے ہم آج چھواچھوت کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس وقت میں نے ایک اور چیز دیکھی تھی اور وہ تھی کہ وہ چپراسی بھلے ہی ہمارے ساتھ بہت گھل مل کر رہتا تھا، باوجود اس کے وہ کبھی بھی ہمارے کھانے یا برتنوں کو چھوتا نہیں تھا اور اپنے برتن خود صاف کرتا تھا۔

وقت کے ساتھ ہم بڑے ہوتے گئے اور ہمارے دوست یار بھی بڑھنے لگے۔ ان دوستوں میں زندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ لڑکے اور لڑکیاں سب تھے۔ اس وجہ سے ہمارے گھر میں مختلف ذات اور مذہب کے لوگوں کا آنا جانا رہا۔ باوجود اس کے میری ماں نے کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ کون کس مذہب یا ذات کا ہے۔ میرے گھر میں ہر کوئی آرام سے آ جا سکتا تھا۔ ان لوگوں میں میرے دو دوست بھی شامل تھے۔ ان میں سے ایک مسلمان اور دوسرا دلت تھا۔ یہاں تک کی جب میری ماں کو یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے کبھی شور نہیں مچایا۔ انہوں نے ان کو ویسے ہی قبول کیا جیسے وہ تھے۔ تو یہ کہانی ہمیں کیا بتاتی ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ گھروں میں چھواچھوت زیادہ پرانی بات نہیں رہ گئی تھی اور جو لوگ اس کی مخالفت کرتے تھے، انہوں نے بھی بغیر کسی پریشانی کے اس بات کو مان لیا تھا۔ تاہم وہ اس بات کو لے کر محتاط رہتے تھے کہ وہ اپنی لائن کی خلاف ورزی نہ کریں، وقت کے ساتھ معاشرے میں بھی تبدیلی آئی اور وہیں لوگ ان سخت سماجی قوانین کو چھوڑتے گئے۔

میری ماں میں بھی تبدیلی آئی، وہ سیدھی سادھی ایک مذہبی انسان تھی۔ میرے والد گریجویٹ تھے اور سرکاری نوکری کرتے تھے اور ان کا مزاج کافی فراخ دل تھا۔ انہوں نے کبھی بھی میری ماں کے مذہبی کاموں کی مخالفت نہیں کی۔ باوجود اس کے دونوں لوگ شاید ہی کبھی میرے دوستوں کی ذات کو لے کر پریشان ہوئے ہوں۔ وہیں دوسری طرف وہ دونوں صبح اٹھ کر نہاتے تھے، روز پوجا کرتے اور اس کے بعد ہی کھانا کھاتے تھے۔ مذہبی اہمیت کے دنوں میں دونوں لوگ سارا دن روزہ بھی رکھتے تھے۔ کیا یہ ہم سب کے لئے سبق ہے؟ جی ہاں بالکل۔ میرے ماں باپ ہندو ہیں اور مذہبی بھی ہیں، لیکن وہ جنونی نہیں ہیں۔ میری شخصیت میں چھپے کئی اصول انہی کی وجہ سے ہیں۔ میں بہت بار اس بات کو لے کر ڈر جاتا ہوں کہ اگر انہوں نے کبھی مجھ سے سماجی طریقوں کو سختی سے عمل کرنے کے لئے کہا ہوتا تو کیا ہوتا؟

گزشتہ ماہ میں کافی پریشان رہا جب میں نے دیکھا کہ گائوں محافظ ٹیم کے رکن دلتوں کی پٹائی کر رہے تھے، تب مجھے اپنے بچپن کے واقعات یاد آ رہے تھے۔ میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ گائوں کے محافظ کارکنوں کا جرم ہماری ذہنیت کا تعصب ہے۔ جس طرح کا سلوک کیا گیا وہ انسانیت کے خلاف ہے۔ میں اس بات کو نہیں مانتا ہوں کہ یہ کام انہوں نے گایوں کو بچانے کے لئےکیا ہے۔ اگر وہ گایوں کے تئیں اتنے زیادہ فکرمند تھے تو اس سے پہلے ان کو سڑکوں کے کنارے اور شاہراہوں کے ارد گرد رہنے والی گایوں کو بچانے کے بارے میں سوچنا چاہیے تھا، جو آئے دن مرتی ہیں۔ اگر ان کو لڑنا ہی ہے تو وہ حکومت کے خلاف لڑیں، تاکہ ان گایوں کو بہتر زندگی اور علاج مل سکے۔ ان لوگوں نے مودی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ملک بھر میں بیف پر پابندی لگائی جائے، لیکن ان کو اس بات سے مایوسی ہوگی کہ مودی حکومت کے دور میں بیف کی برآمد کے میدان میں بھارت دنیا میں نمبر ایک پر پہنچ گیا ہے، لیکن کبھی بھی گائے کو بچانے والوں نے اس کی شکایت تک نہیں کی۔

چلئے ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ہزاروں سال سے ہندو معاشرے میں چھواچھوت ایک گہری حقیقت رہی ہے۔ معاشرے کے اندر دلتوں کے ساتھ ہمارا رویہ بےحد خراب رہا ہے۔ ان لوگوں کے پاس کبھی بھی حق نہیں رہے۔ ان کو ہمیشہ سماج سے باہر رکھا گیا۔ ان کے ساتھ کبھی بھی برابری کا سلوک نہیں کیا گیا۔ یہ کچھ ویسا ہی تھا، جیسے مغربی ممالک میں کچھ وقت پہلے تک غلام رواج تھا۔ چھواچھوت ماننے والے اور اس کا سامنا کرنے والے دونوں کا یہ ماننا غلط ہے کہ گزشتہ زندگی میں انہوں نے جو غلط کام کئے تھے، اس کا پھل اس جنم میں مل رہا ہے اور اگر وہ اس جنم میں صحیح اعمال کریں گے تو اگلے جنم میں ان کی قسمت بدل سکتی ہے۔ حالانکہ وہ برہمن بھی ہو سکتے ہیں، لیکن اس کی زندگی میں ان کے پاس جہنم کی طرح رہنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔

ہمارے آئین میں چھواچھوت اور عدم مساوات کو ختم کر دیا گیا۔ قانونی طور پر سب برابر ہیں اور قانون سب کے ساتھ برابری کا سلوک کرے گا۔ دلتوں کو بھی وہ حق ملے ہیں، جو حق اونچی ذات والوں کے پاس ہیں۔ باوجود اس کے معاشرہ ذات پات کی لائن پر بٹا ہوا ہے۔ ہزاروں سال پرانی سوچ ہمارے اندر ایک رات میں نہیں بدل سکتی، لیکن آئینی مساوات نے دلتوں کے دماغ میں انقلاب پیدا کر دیا ہے۔ وہ اپنے سماجی حقوق کو لے کر پہلے سے زیادہ زوردار طریقے سے مطالبہ کرنے لگے ہیں اور اپنے حق کے لئے لڑنے لگے ہین جو ان کو آئین سے حاصل ہوئے ہیں۔ جسے معاشرے کے اعلی طبقے نے پسند نہیں کیا اور اس کا اثر یہ ہوا کہ دونوں کے درمیان تنازعہ کی صورت حال پیدا ہو گئی۔ اس طرح کے واقعا جنونی کوشش ہیں، دلتوں کو سبق سکھانے کے لئے اور ان کو یہ یاد دلانے کے لئے کہ ذات پات کی درجہ بندی میں ان کی حالت کیا رہی ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کا وہ المناک چہرہ ہے، جہاں پر ان کو کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ کوشش ہے ان لوگوں سے بدلہ لینے کی، جس کی وجہ سے جمہوری حق ملنے کے بعد وہ پہلے سے زیادہ طاقتور ہوگئے ہیں۔

میرے ماں باپ ہزاروں سال پرانے مذہبی طریقوں کا موہرا بنے تھے، لیکن جیسے ہی ان کا حقیقت سے سامنا ہوا انہوں نے اپنے میں تبدیلی لانا شروع کی اور انسانیت کے طور پر اپنے کا نئے حالات میں ظم کیا۔ انہوں نے کبھی بھی جدیدیت کی مخالفت نہیں کی، بلکہ انہوں نے دونوں ہاتھوں سے اسے قبول کیا۔ لیکن حال ہی میں جس طرح دلتوں کے ساتھ سلوک کیا گیا وہ غلط ہے۔ایسا کرنے والے یہ وہ لوگ ہیں جو تبدیلی نہیں چاہتے اور جدیدیت کے مخالف کر رہے ہیں۔ ایسے میں ضروری ہے کہ ایسے لوگوں کے خلاف لڑنا چاہئے اور ان کو ہرانا ضروری ہے۔ وہیں دلتوں میں اب پہلے کے مقابلے زیادہ اعتماد پیدا ہو گیا ہے۔ یہ امید کی ایک کرن ہے۔ وہ پہلے کے مقابلے زیادہ روشن اور اس سماجی برائی کے خلاف متحد ہو گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب وہ تاریخ اور معاشرے میں اس کی مناسب جگہ حاصل کرنے کے لئے اپنی لڑائی لڑنے میں شرم محسوس نہیں کرتے۔

... قلمکار آشوتوش عام آدمی پارٹی کے لیڈر ہیں۔