نہ چھت ہے نہ کوئی عمارت،غریب بچوں کے لئے سڑک کے کنارے ایک خاتون پروفیسر چلا رہی ہیں اسکول

نہ چھت ہے نہ کوئی عمارت،غریب بچوں کے لئے سڑک کے کنارے ایک خاتون پروفیسر چلا رہی ہیں اسکول

Thursday November 03, 2016,

6 min Read

ڈاکٹر للتا شرما اندور کے سینٹ پال انسٹی ٹیوٹ آف پروفیشنل اسٹڈیز میں پروفیسر کے عہدے پر ہیں۔ وہ طلباء کو سیاسیات اور مینجمنٹ جیسے مضامین پڈھاتی ہیں۔ سال 2010 میں اندور کے وجئے نگر علاقے میں جب ان کا گھر بن رہا تھا تو ان کے گھر کے سامنے ایک پارک تھا۔ جہاں پر اسکول کے بچے اسکول جانے کی جگہ وہاں بیٹھ کر سگریٹ پیتے تھے اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بھدی زبان میں بات کرتے تھے۔ ڈاکٹر للتا نے جب ان بچوں سے بات کی تو ان کو پتہ چلا کہ یہ بچے 8 ویں پاس ہیں، کیونکہ سرکاری اسكلول میں 8 ویں تک کسی بچے کو فیل نہیں کیا جاتا، لیکن 9 ویں میں آنے پر ان بچوں پر پڑھائی کا بوجھ بڑھ جاتا ہے اور ان کی بنیادی تعلیم کمزور ہونے کی وجہ سے یہ بچے فیل ہو جاتے ہیں۔ اس وجہ سے وہ اسکول جانے کی جگہ اس طرح پارک یا دوسری جگہوں میں اپنا وقت برباد کرتے ہیں۔ وہیں ان بچوں کے والدین کو بھی پتہ نہیں چلتا کہ ان کا بچہ اسکول گیا ہے یا کہیں اور غلط کام کر رہا ہے۔ کیونکہ ان بچوں کے والدین چھوٹے موٹے کام دھندے کرتے ہیں اور ان کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ اپنے بچوں پر نظر رکھ سکیں۔

ڈاکٹر للتا نے دیکھا کہ سلم آبادی میں رہنے والی چھوٹی سی لڑکیاں اسکول نہیں جاتی تھیں اور وہ اپنی ماں کے ساتھ گھروں میں کام کرتی تھیں۔ تب ڈاکٹر للتا نے سوچا کہ کیوں نہ ایسے لڑکے لڑکیوں کو پڑھانے کا کام کیا جائے جو کچھ وجوہات سے آگے نہیں پڑھ پاتے۔ اس کے لئے انہوں نے سڑک کنارے ہی ان بچوں کو پڑھانا شروع کیا۔ اس کے علاوہ جن بچوں کے والدین اسکول کی فیس جمع کرنے کے قابل نہیں تھے، ان کے اسکول کے پرنسپل سے بات کرڈاکٹر للتا نے بچوں کی آدھی فیس معاف کرائی۔

image


للتا بتاتی ہیں، "شروع میں میں نے 8 بچوں کو اپنے گھر کی سامنے کی سڑک کے کنارے پڑھانا شروع کیا۔ آہستہ آہستہ یہ تعداد بڑھتی گئی جو آج 198 تک پہنچ گئی ہے۔ "

ان کے ساتھ 25 والینٹير بھی اپنے اپنے علاقوں کے بچوں کو اپنے گھر یا آس پاس کی جگہوں میں پڑھانے کا کام کرتے ہیں۔ ان کی ہر کلاس میں کم از 15 یا اس سے زیادہ بچے ہوتے ہیں۔ ان کی کوششوں کا ہی نتیجہ ہے کہ جن بچوں کو اسکول چھوٹ گیا تھا، آج وہ تمام اسکول جانے لگ گئے ہیں۔ اتنا ہی نہیں ڈاکٹر للتا کے پڑھائے ہوئے کچھ بچے انجینئرنگ کی بھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ انہوں نے شروع میں جب بچوں کو پڑھانا شروع کیا تو مقامی لوگوں نے ان کی مخالفت کی، کیونکہ اس وقت کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ وہ یہ کام سرکاری مدد سے کر رہی ہیں، لیکن جب لوگوں کو حقیقت سے سامنا ہوا تو انہوں نے مخالفت کرنا بند کر دیا ۔

آج ڈاکٹر للتا شرما اپنے گھر کے سامنے کی سڑک اور پیچھے کے حصے میں بچوں کو پڑھانے کا کام کرتی ہیں۔ وہ ہر روز شام 4 بجے سے 6 بجے تک بچوں کو پڑھانے کا کام کرتیں ہیں۔ یہ بچے 8 ویں سے 12 ویں کلاس تک کے طالب علم ہیں۔ پیر سے جمعہ تک یہ بچوں کو ان کے کورس سے منسلک کتابیں پڈھاتی ہیں جبکہ ہفتہ اور اتوار کو وہ ان بچوں کو اخلاقی تعلیم دیتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ اخلاقی تعلیم کا ان بچوں پر بہت مثبت اثرات پڑھا ہے۔ ان کے والدین ڈاکٹر للتا کو بتاتے ہیں کہ ان کے بچے اب گھر میں جھگڑا نہیں کرتے ہیں اور نہ ہی دوسروں کو ایسا کرنے دیتے ہیں۔ ان کے پاس پڑھنے والی کچھ لڑکیاں اخلاقی تعلیم کی ان کتابوں کو اپنے ساتھ لے جا کر انہیں اپنے گھر کے آس پاس بانٹنے کا بھی کام کرتی ہیں۔

image


ڈاکٹر للتا ان بچوں کو موسم گرما کی چھٹیوں کے دوران ووکیشنل ٹریننگ بھی دیتیں ہیں۔ گزشتہ سال انہوں نے لڑکیوں کو ٹیلرنگ اور جویلری میکنگ کا کام بھی سكھانا شروع کیا ہے۔ اس سال انہوں بچوں کو کمپیوٹر سکھانے کے لئے گیل کمپنی سے بات کی اور کمپنی ان کے بچوں کو کمپیوٹر سکھانے کے لئے تیار ہو گئے ہیں۔ ڈیجیٹل انڈیا مہم کے ذریعے ان بچوں کو کمپیوٹر سکھایا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر للتا بتاتی ہیں کہ فی الحال 60 بچے ہی گیل کے سینٹر میں کمپیوٹر سیکھنے کیلئے جاتے ہیں۔ تاہم ان کی کوشش زیادہ سے زیادہ بچوں کو کمپیوٹر سکھانے کی ہے۔

ڈاکٹر للتا بتاتی ہیں کہ اپنے اس کام میں انہیں اپنے خاندان کا بہت تعاون حاصل ہے۔ خاص طور پر ان کی ساس کا۔ ان ساس ان بچوں کو آرٹ اور کرافٹ کی ٹریننگ دیتی ہیں جبکہ ڈاکٹر للتا ان بچوں کو انگریزی پڑھاتی ہیں۔ باقی موضوع ان کے ساتھ منسلک والینٹير پڑھاتے ہیں۔ ان میں سے ایک والٹير یادو ان کے ساتھ ابتدائی دنوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے انجینئر ہیں۔ وہ ان بچوں کو ریاضی اور سائنس پڑھاتے ہیں۔ کچھ بچے جو پہلے ان کے یہاں پر پڑھتے تھے، آج وہ بھی دوسرے بچوں کو پڑھانے کا کام کرتے ہیں۔ سڑک کنارے چلنے والا ان کا اسکول کہیں بھی رجسٹرڈ نہیں ہے، تو اسکول چلانے میں جو بھی خرچ آتا ہے وہ اسے خود ہی اپنی جیب سے ادا کرتی ہیں۔ ان کے کام کو دیکھتے ہوئے دوسرے لوگ ان کے پاس بچوں کو دینے کے لئے کپڑے اور کھانا لے کر آتے ہیں۔ جسے وہ بہت ہی عاجزی سے انکار کر دیتی ہیں۔ وہ ان سے کہتی ہیں کہ اگر وہ مدد ہی کرنا چاہتے ہیں تو وہ ان بچوں کو پڑھانے میں مدد کریں۔ ڈاکٹر للتا کہتی ہیں "میں ان بچوں کو خود کفیل بنانا چاہتی ہوں۔ اگر میں ان بچوں کو کچھ دیتی ہوں تو اس سے ان کی عادت خراب ہو سکتی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ کل خود اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی کوشش ہی نہ کریں۔ "

اب ڈاکٹر للتا کی کوشش ہے کہ وہ اندور کے دوسرے علاقوں میں بھی اس طرح کی کلاسیں چلائیں تاکہ جو بچے تعلیم سے دور ہو چکے ہیں، ان کو ایک موقع دوبارہ ملے۔ خاص بات یہ ہے کہ اس سال 2 جنوری میں صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی نے جن سو خواتین کواعزاز سے نوازا ان میں ڈاکٹر للتا شرما بھی ایک تھیں۔ ڈاکٹر للتا شرما کو یہ اعزاز ان کی تعلیم کے میدان میں کام کو دیکھتے ہوئے دیا گیا۔