اپنے خواب شرمندہ تعبیر کیسے کریں؟ کیپٹن اندرانی سنگھ ایک مشعل راہ

ایربس300 Aکی پہلی خاتون کمانڈر اور کیپٹن اندرانی سنگھ

اپنے خواب شرمندہ تعبیر کیسے کریں؟  کیپٹن اندرانی سنگھ ایک مشعل راہ

Thursday November 05, 2015,

9 min Read

ارادے مضبوط اور حوصلے بلند ہوں تو سب کچھ ممکن ہے ۔ اس بات کو ثابت کیا ہے کیپٹن اندرانی سنگھ نے ۔ یہ دنیا میں ائر بس 300A کی پہلی خاتون کمانڈر تو ہیں ہی تمام ایشیا میں ائر بس A ۔320 کی پہلی خاتون کمرشل پائلٹ اور لٹریسی انڈیا کی بانی سکریٹری ہیں ۔

دہلی میں ان کی ولادت ہوئی ۔ جس مقام پر وہ آج کھڑی ہیں وہاں تک پہنچنے کا راستہ بڑا سنگلاخ تھا ۔ اس کے باوجود وہ اپنے فضائی کیریئر کے ساتھ ساتھ غریب بچوں کو تعلیم اور خواتین کو خود کفیل بنانے کے لئے تربیت دے رہی ہیں ۔ اندرانی کا بچپن دراصل دو ثقافتوں کا مرکب تھا کیونکہ ان کی والدہ بنگالی اور والد راجپوت ہیں ۔ اندرانی سنگھ نے دہلی سے اپنے اسکول اور کالج کی تعلیم مکمل کی ۔ کالج کے دنوں میں وہ این سی سی کی گلائڈر پائلٹ تھیں اور اسی وقت سے انہیں فضاؤں میں پرواز کرنے کا شوق ہو گیا تھا ۔ اگرچہ یہ وہ دور تھا جب اس شعبہ میں لڑکیاں نہیں آتی تھیں ۔ ان کے لئے یہ کیرئر بالکل نیا تھا ۔ دوسری طرف ان کے والد کو کاروبار میں کافی نقصان ہو گیا تھا' ا س کے نتیجہ میں گھر کی معاشی حالت خراب ہو گئی تھی ۔ بیٹی کی خواہش پوری کرنے کے لئے والد نے قرض لینے کا فیصلہ کیا ۔ ان حالات میں اندرانی کے سامنے صرف ایک ہی راستہ تھا کہ وہ پروازکے میدان میں ہی اپنا کیریئر بنائے اور دنیا بھر میں اپنے وجود کوثابت کرے ۔

image


اندرانی کا کہنا ہے کہ اس دوران ان کی جیسی کئی دوسری لڑکیوں نے بھی اس شعبہ میں اپنا کیریئر بنانے کا فیصلہ لیا تھا تاہم ان کی تعداد کافی کم تھی ۔ ان میں سے اکثر لڑکیوں کو یہ کیرئر درمیان میں ہی چھوڑنا دینا پڑا ۔ اس کی اہم وجہ یہ تھی کہ فلائنگ کلب پہنچنے کے لئے انہیں کافی دور تک تنہا سفر کرنا پڑتا تھا ۔ دوسری طرف یہ بھی عام خیال تھا کہ لڑکیاں اکیلے جہاز کس طرح اڑا سکتی ہیں؟ اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے مضبوط ارادوں والی اندرانی اس شعبہ میں ڈٹ گئیں ۔ دہلی فلائنگ کلب سے پرواز کے گُر سیکھنے کے دوران انہیں بہت ساری مصیبتوں کا مقابلہ کرنا پڑا ۔ اس کے ساتھ پرواز کی ٹرینگ لینے والے مردوں کا نظریہ مختلف تھا ۔ اتنا ہی نہیں ان کو کوئی یہ بتانے والا نہیں تھا کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط ۔ اندرانی جس موٹر سائیکل سے پرواز کلب آنا جانا کرتی تھیں کبھی کبھی کچھ شرارتی لوگ ان کی موٹرسائیکل کے ٹائر کی ہوا نکال دیتے تھے ۔ اس وقت وہ دوسروں سے مدد لینے کے بجائے خود ہی موٹر سائیکل کو دھکیلتے ہوئے ٹائر میں ہوا بھرانے لے جاتی ۔ اندرانی نے کبھی ہمت نہیں ہاری ۔ مشکل حالات کی پرواہ کئے بغیر اپنے ارادوں اور باپ کے بھروسے کو پورا کرتے ہوئے انہوں نے اپنی تربیت مکمل کر لی ۔

image


ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد آخرکار وہ دن بھی آیا جب سال 1986 میں اندرانی کو پائلٹ بننے کا لائسنس مل گیا ۔ کچھ عرصہ بعد وہ ایئر انڈیا کے بوئنگ ۔737 طیاروں میں سوار ہو کر فضاؤں میں پرواز کرنے لگیں ۔ تقریباً 26 سال سے ایئر انڈیا کے ساتھ منسلک اندرانی کا کہنا ہے کہ "مجھے کئی بار ایسے موقع بھی ملے جب دوسری ایئر لائنز کے ساتھ کام کرنے کا پیشکش ہوا ۔ لیکن میں نے قبول نہیں کیا ۔ میرا خیال ہے کہ جس ادارہ نے آپ کو شناخت دی ہو آپ پر یقین کیا ہو' اس کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانا نہیں چاہئے '' ۔ ملازمت کے دوران بھی اندرانی کو کئی بار امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا' کیونکہ اس وقت کوئی بھی خاتون فرسٹ آفیسر نہیں ہوا کرتی تھی' لیکن اپنے پیشہ میں مہارت رکھنے والی اندرانی ہر مشکل رکاوٹ کو پار کر گئیں ۔

اندرانی سنگھ بتاتی ہیں کہ جب ایئربس 320 کی ٹریننگ لینے کے لئے وہ فرانس روانہ ہوئیں تو اس وقت امریکہ' اسرائیل اور چند ممالک کو چھوڑ کر کسی بھی ملک کی خاتون پائلٹ وہاں پرموجود نہیں تھیں ۔ وہاں کے لوگ یہ سوچ کر حیران ہوتے تھے کہ جس ملک کی خواتین پردے میں رہتی ہیں وہاں کی ایک خاتون پائلٹ ٹریننگ کے لئے اتنی دور آئی ہیں ۔ اسی طرح ایئربس 300 کی تربیت کے بارے میں اندرانی بتاتی ہیں کہ اس وقت دنیا میں ایسے جہاز کے لئے کوئی کمانڈر نہیں تھا' ایئربس نے ان پر ایک آرٹیکل شائع کیا ۔ اس وقت بھی لوگ اس بات پرحیرت کا اظہار کرتے کہ کس طرح کوئی نوجوان لڑکی اتنے بڑے جہاز کی کمانڈر بننے کے قابل ہو سکتی ہے؟ لیکن اپنے جوش اور جذبہ کی وجہ سے اندرانی نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا اور لوگوں کے اندیشوں کو غلط ثابت کر دیا ۔

image


اندرانی کی شادی سال 1987 میں کولکتہ میں ہوئی ۔ ان کے شوہر بھی اسی پروفیشن میں ہیں اور سینئر کیپٹن ہیں ۔ اندرانی کا کہنا ہے کہ ان کی زندگی صحیح طریقے سے چل رہی تھی باوجود اس کے ہر وقت انہیں لگتا تھا کہ اب بھی کچھ کمی ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ اکثر بچپن کے دنوں میں بھی انہیں محسوس ہوتا تھا کہ وہ اسکول تو جا رہی ہیں لیکن دوسرے ایسے کئی بچے ہیں جو بھیک مانگنے پر مجبور ہیں' فاقہ کشی میں مبتلا ہیں ۔ ایک دن وہ کولکتہ میں تھیں تو انہوں نے راستے میں دیکھا کہ ایک راہبہ کچھ غریب بچوں کو اپنے پاس بیٹھا کر بے لوث انداز سے ان کے بال صاف کر رہی تھیں۔ یہ بات اندرانی کے دل کو چھو گئی کہ کس طرح کوئی اتنی گندگی میں جاکر کام کر سکتا ہے ۔ اتفاق سے ایک بار مدر ٹریسا کو علاج کے لئے کہیں لے جایا جا رہا تھا ۔ خاص بات یہ تھی کہ جس طیارے سے مدر ٹریسا سفر کر رہی تھیں اس کی پائلٹ اندرانی ہی تھیں ۔ جب اندرانی کو یہ پتہ چلا کہ مدر ٹریسا ان کے جہاز میں سوار ہیں تو انہوں نے ان کو ایک خط ارسال کیاجس میں انہوں نے لکھا "ڈیر مدر، آئی وانٹ ٹو بیکم فلائنگ نن" یہ بات ان کے ساتھ سفر کر نے والی سسٹر شانتی کو ناگوار گزری' لیکن فراخ دل مدر ٹریسا پہلے تو ہنس پڑیں اورپھر اندرانی سے مخاطب ہوئیں کہ بیٹی تم کیپٹن ہو اور کچھ بھی کر سکتی ہو۔

اس طرح اندرانی کے ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نہ بچوں اور خواتین کے لئے کچھ کیا جائے ۔ اپنی اس سوچ کو انجام دینے کے لئے سال 1995 میں انہوں نے گڑگاؤں میں ایک خاتون ٹیچر کو اپنے ساتھ شامل کرتے ہوئے 5 غریب بچوں کو پڑھانے کا کام شروع کردیا ۔ ابتدا میں انہیں تمام مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ انہیں ایسی جگہ تلاش کرنے میں کافی پریشانی ہوتی تھی جہاں پر غریب بچوں کو پہنچنے میں آسانی ہو۔ اس کے لئے انہوں نے ایسے بلڈروں سے رابطہ قائم کیا جن کے قریبی علاقوں میں تعمیری کام چل رہے ہوتے تھے۔ وہ ان سے منت سماجت کرتیں کہ وہ کچھ وقت کے لئے اپنے خالی فلیٹ بچوں کو پڑھنے کے لئے دے دیں ۔ آہستہ آہستہ بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوتارہا ۔ انہیں محسوس ہوا کہ بچوں کو پڑھانے کے لئے ایسی جگہ کی ضرورت ہے جو ان کی شناخت بن سکے ۔ چنانچہ انہوں نے اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ مل کر 1996 میں 'لٹریسی انڈیا' قائم کی ۔ اس طرح آہستہ آہستہ لوگ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا ۔

image


ملک بھر کی 11 ریاستوں میں آج 'لٹریسی انڈیا' کے55 سینٹر ہیں ۔ ان ریاستوں میں دہلی این سی آر کا علاقہ تو ہے ہی ساتھ ہی مغربی بنگال' جھارکھنڈ' کرناٹک' تلنگانہ' اتر پردیش سمیت کئی دوسرے ریاستیں شامل ہیں ۔ ان اداروں میں نہ صرف غریب بچوں کو مفت تعلیم دلائی جاتی ہے بلکہ غریب خواتین کوبھی خود کفیل بنایا جاتا ہے۔ اس کے لئے 'ایدھا' نام سے ایک پروجیکٹ چلایا جا رہا ہے ۔ اس کے تحت ہاتھ سے بنے بیگ' گھر سجانے کا سامان' کارپوریٹ گفٹ اور ریسائکل کاغذ سے مصنوعات تیار کئے جاتے ہیں۔ دوسری طرف جو بچے معاشی وجوہات سے اسکول نہیں جا پاتے ان کے لئے 'لٹریسی انڈیا' یونیورسٹی' اسکول اور گروکل نام سے مختلف پروجیکٹ چلا رہا ہے ۔ ان پروجیکٹ کا بنیادی مقصد تعلیم کی سطح کو بہتر بناناہے ۔ بچوں کو اس قابل بنانا کہ وہ اپنے کیریئر کے بارے میں مناسب فیصلہ لے سکیں ۔ ساتھ ہی تعلیم کے ذریعہ بچوں کی مہارت میں نکھار لانا ہے۔ یہی وجہ ہے 'لٹریسی انڈیا' کی طرف سے چلائے جانے والے ان پروگراموں کی بدولت 50 ہزار سے زیادہ بچے اور خواتین اپنے خواب شرمندہ تعبیر کرنے کا گُر سیکھ رہے ہیںِ-

اندرانی کہتی ہیں کہ جب انہوں نے یہ کام شروع کیا تھا تو لوگ اس بات پر حیران تھے کہ کیوں یہ خاتون اپنا اچھا خاصا کیریئر ہوتے ہوئے بھی سماجی خدمت کے میدان میں کام کرنا چاہتی ہیں ۔ گڑگاؤں کے بجگھیڑا گاؤں سے کام شروع کرنے والی اندرانی کے مطابق ابتدائی مرحلے میں انہیں کافی اقتصادی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے لوگ انہیں کئی طرح کے مشورہ بھی دیتے تھے ۔ انہیں فیشن شو تک منعقد کرانا پڑا' جس کا ان سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا ۔ کسی نے ان کو مشورہ دیا کہ وہ بچوں کو تھیٹر سے جوڑ دیں ۔ یہ مشورہ مفیدثابت ہو ا۔ چنانچہ آج 'لٹریسی انڈیا' کے تحت تعلیم حاصل کر نے والے بچے نہ صرف تھیٹر سے متعلق فنکاری بڑی گہرائی و گیرائی کے ساتھ سیکھتے ہیں بلکہ موقع ملنے پر ملک کے مختلف حصوں میں ڈرامہ بھی پیش کرتے ہیںِ۔ اندرانی کی وجہ سے ہی تھیٹر سے جڑنے والے بہت سارے بچوں کو قومی سطح پر شناخت حاصل ہوئی ہے۔' 'تھری ایڈیٹس' فلم میں ملی میٹر کا کردار ادا کرنے والے راہول سمیت 7 بچوں نے 'لٹریسی انڈیا' میں اداکاری کی تربیت حاصل کی اور فلمی دنیا میں اپنا مقام پیداکرلیا۔

image


غریب بچوں کو ڈیجیٹل دنیا سے جوڑ دینے اور ان میں تعلیم کارجحان بڑھانے کے لئے 'لٹریسی انڈیا’’گیان تتر ڈیجیٹل دوست‘‘ نام سے ایک پروگرام چلا رہا ہے ۔ اس کے لئے ایک خصوصی سافٹ ویئر تیار کیا گیا ہے ۔ اس میں بچوں کو بڑے دلچسپ انداز میں تمام موضوعات پڑھائے جاتے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ پروجیکٹ دہلی این سی آر کے کئی سرکاری اسکولوں میں 'لٹریسی انڈیا' کی مدد سے چلایا جا رہا ہے.۔ 53 سالہ اندرانی آج بھی موقع ملنے پر نہ صرف کیپٹن کا کردار بڑی ذمہ داری سے ادا کرتی ہیں' بلکہ غریب بچوں اور خواتین کو ان کے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے ان میں جوش اور ہمت بالکل اسی طرح برقرار ہے جیسے ان میں فلائنگ کیریئر بنانے کے وقت تھی ۔