یتیمی کے باوجود دوسرے بچوں کے سنہرے مستقبل کی تعمیر میں مصروف شراويا

 یتیمی کے باوجود دوسرے بچوں کے سنہرے مستقبل کی تعمیر میں مصروف شراويا

Sunday January 10, 2016,

7 min Read


شراويا نے بڑی آمدنی اور روشن کیریئر کو چھوڑا

بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے کوشاں

چھوٹے شہروں کے بچوں کو بڑے خواب دکھانے کی کوشش

بچوں کو نئے طریقے سے پڑھانے میں مشغول

شراويا نے ایک ایسا کام کیا ہے، جس پر صرف مردوں کا غلبہ تھا۔ ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں۔ تیل رساو سے منسلک پروجیكٹ

شرويا کی خواہش ہوئی کہ وہ اس بھاگ دوڑ بھری زندگی سے پیچھا چھڑا کر سکون کی زندگی جئے۔ ان کی یہ خواہش انہیں گھوم پھر کر آندھرا پردیش کے چھوٹے سے قصبے میں واقع ان کے اپنے گھر لے آئی۔ یہاں سے انہوں نے اختروعی کام، ٹیکنالوجی اور تعلیم کے ذریعے لوگوں کی زندگی میں مثبت تبدیلی لانے کی ٹھانی۔ پریسڈنسی کڈس پری اسکولس کی شریک بانی ہونے کے ناطے، خواب دیکھنے کے لئے نوجوانوں کا حوصلہ بڑھانا اورانہیں شرمندہ تعبیرکرنے کی کوشش کرنے کی تحریک دینا شراویا کی خواہش تھی۔ ان کے دماغ میں تعلیمی نظام میں مثبت تبدیلی لانے کے لئے ٹیچرس اور اسٹوڈنٹس کی حوصلہ افزائی کرنے کی حکمت عملی بھی کروٹ لے رہی تھی۔

image


نظام آباد کے ایک اوسط خاندان کے خاندان میں پلی بڑھیں شراويا کو بچپن میں غیر محفوظ ماحول ملا۔ جس کی وجہ سے ان میں کچھ اعتماد کی کمی بھی رہی۔ جب وہ انہوں نے بہر دنیا کے ساتھ رابطے میں آئیں تو انہیں احساس ہوا کہ وہ ایک ایک کوئیں کے مینڈک کی طرح ہیں۔ لیکن اس کے بعد انہوں نے اپنی سوچ کو تبدیل کرنے کی ٹھان لی اور قصبے سے باہر نکل کر راجستھان واقع بٹس پلانی انجینئرنگ انسٹی ٹیوٹ میں داخلہ لیا۔

یہاں کی دنیا شراويا کے لئے با لکل اجنبی تھی۔ انہیں یہیں اس بات کا احساس ہوا کہ دنیا کو پچھاڑکر آگے نکل جانا زندگی کا نام نہیں بلکہ لوگوں کے ساتھ قدم بہ قدم چلنا زندگی کا مقصد ہونا چاہئے۔ شراويا جب تک اس انسٹی ٹیوٹ میں رہیں، انہوں نے پروجیکٹ 'سکشم' شروع کیا۔ اس کے ذریعے انہوں نے دیہی خواتین کی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے کوشش کی۔ شراويا نے خواتین کو اقتصادی سطح پر مناسب فیصلے کرنے کے قابل بنانے پر زور دیا۔ افسوس کہ یہ پروجیکٹ کامیاب نہیں ہو سکا۔ اس کے باوجود انہیں اس پروجیکٹ کے ذریعے لوگوں کو شان روزی روٹی کمانے کا راستہ ملا۔ اس کے بعد وہ سماجی تبدیلی کے مقصد اسی راہ پر چل پڑیں۔ گریجویشن کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد شراويا نے oilfield کے سروسز کمپنی شلمبرگر کو بطور فیلڈ انجینئر جوائن کیا۔ انہوں نے چھ سالوں میں کمپنی کے مختلف عہدوں پر رہتے ہوئے پانچ ممالک میں کام کیا۔ اس درمیان بچت کے پیسوں سے انہوں نے شریک بانی رہتے ہوئے گراسروٹس فیلو شپ پروگرام شروع کیا۔ اس کا مقصد نوجوان دیہاتیوں کو کاروباری بنانا تھا۔ اس کے تحت انہوں نے نوجوانوں کی تعلیم اور انٹرپرائز کی مہارت پر توجہ دیتے ہوئے کل 32 منصوبوں پر کام کیا۔ اگرچہ ایسا کرنا اپنے آپ میں ایک بہترین مثال تھی، لیکن اپنے کاموں کو وہ کامیابی کے سانچے میں ڈھالنے میں ناکام رہیں۔ شراويا نے شلمبرگر سے منسلک رہتے ہوئے تین براعظموں کے الجزیریہ، امریکہ، قطر، دبئی اورہندوستان وغیرہ ممالک میں کام کیا۔ تیل رساو کمپنی میں اپنے کام کے تجربے کی بنیاد پر شراويا کہتی ہیں کہ

image


'' ہر عورت کو اپنی زندگی میں چیلنجوں کو قبول کرنے سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے۔ اسے جسمانی محنت کرنا چاہئے۔ ایسا کرنے سے ہی وہ حقیقت میں احترام کے قابل ہو جائے گا۔ یہ یقین مجھ میں تب جاگا جب میں سہارا ریگستان میں تیل رساو پلانٹ میں جی توڑ محنت کرتی تھی۔ یہ میرے لئے حیرت کی بات تھی کہ اس دور دراز علاقے میں دو تین سو میل میں میں اکلوتی ایسی عورت تھی جو کسی مرد سے کمتر نہیں تھی۔''

شراويا بتاتی ہیں کہ ان کا والد کی ایک حادثے میں انتقال ہوا- دکھوں کا پہاڑ سر پر تھا۔ ۔ اس وقت وہ کافی چھوٹی تھیں۔ شرويا کہتی ہیں،

'' والد کے جانے کے بعد گویا ایسا لگا کہ میرے جسم کا بڑا حصہ کہیں کھو گیا ہے۔ دس سال کی عمر میں ہی میں نے جینے کی تقریبا ساری امیدیں چھوڑ دی تھیں۔ مجھے کوئی بھی راہ نہیں سوجھ رہی تھی۔ اگلے سات سالوں تک میں اسی امید کے ساتھ سوتی رہی کہ ہو سکتا ہے کہ شاید اگلی صبح والد کی موت خواب ثابت ہو جائے۔''

ایک بار كالالاپر میں کاروباری دورے کے دوران مستقبل پر تبادلہ خیال ہو رہا تھا۔ اس دوران وہ خوشی اور اطمینان کے فرق کو سمجھنے پر مجبور ہو گئیں۔ کہتی ہیں، '' اس وقت مجھے لگا کہ میری پروفیشنل اور ذاتی زندگی میں سب کچھ اچھا ہونے کے باوجود مجھے اطمینان نہیں تھا۔ '

image


ایک بار کی بات ہے کہ شراويا اپنے والدین کے قائم کردہ اسکول کے بچوں کے ساتھ گھومنے گئیں۔ اس سفر کے دوران بچے اور ان کے والدین شراويا سے ان کے بارے میں جاننے کے لیے بے چین ہوئے۔ اس پوری بات چیت اور سفر میں شراويا کو اپن ذمہ داری کا احساس ہوا۔ شرويا سمجھ چکی تھیں کہ اب انہیں کیا کرنا ہے۔ وہ یہ جان چکی تھیں کہ اگر لوگوں کی زندگی کو بہتر بنانا ہے تو تعلیم کو ہی بنیاد بنانا ہوگا۔ اسی مقصد کو حاصل کرنےکے لئے وہ ان دنوں پریسیڈینسی ہائی اسکول میں کام کر رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی شراويا نے پریسیڈینسی کڈس پری اسکولس بھی قائم کیا۔

شراويا کے لئے اپنے روشن کیریئر کو چھوڑنے کے لئے اپنے شوہر کو منانا کوئی بڑا چیلنج نہیں تھا۔ دقت ذاتی طورپر تھی۔ شراويا کو اپنے مقصد میں حقیقت کے رنگ بھرنے کے لئے واپس اسی قصبے میں لوٹنا تھا جہاں سے وہ عرصہ پہلے نکل چکی تھیں۔ ایسا کرنا ان کے لئے آسان نہیں تھا۔ سب کے بعد، تمام خدشات پر قابو پانے کی شرويا نے اپنے چھوٹے سے شہر کی طرف سفر کیا۔

شراويا کہتی ہیں کہ جب بات لڑکیوں کی تعلیم کی آتی ہے تو والدین اکثر محدود دائروں میں اس کیریئر کے اختیارات کو طے کر دیتے ہیں۔ وہ اس دنیا کے تمام علاقوں سے دور رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ سے لڑکیوں میں اس طاقت کا احساس کم ہو جاتا ہے جس سے وہ یہ طے کر سکیں کہ وہ آخر کتنے بڑے خواب دیکھ سکتی ہیں۔

جذباتی اور سماجی کورس پر زور دیتے ہوئے شراويا ان دنوں ایک ویژن کے ساتھ لوگوں کو زندگی کے اصل طریقوں کو آرام دہ اور خوشگوار طریقے سے سیکھانے کے لئے کام کر رہی ہیں۔ وہ تمام تجربات کے ذریعے لوگوں کو خود کے بارے میں جاننا سکھاتی ہیں۔ انہیں یہ احساس دلاتی ہیں کہ غلطیاں بھول جانے کے لئے ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ تعلیم کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی پر بھی باہمی زور دیتے ہوئے کہتی ہیں-

''ٹیکنالوجی میں دنیا تبدیل کرنے کی قوۃ ہے۔ اس کے ذریعے مشکل سے مشکل مسئلے کو آسانی سے حل کیا جا سکتا ہے۔ بچوں کو ہجے، ڈکشنری اور الجیبرا وغیرہ سے واقف کرانے کے لئے میں اور ہماری ٹیم ایپ کی بنیاد پر تعلیم کو فروغ دے رہی ہے۔ '

اس کے علاوہ كلاس رومس میں اساتذہ اور بچوں کے درمیان باہمی تال میل کے لئے سازگار ماحول بنانا اور ان کے درمیان بات چیت ترجیح رہتی ہے۔ تشخیص میں تبدیلی، اساتذہ سے جڑنے کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کرانا اور سماجی جذباتی کورس رکھنا۔ ان تینوں کی وجہ سے بچے خود کو سب سے بہتر طریقے سے ظاہر کر سکتے ہیں۔

شراویہ اپنے ہم خیال لوگوں کی تلاش کر رہی ہیں تاکہ ان کے مشن کو پروجیکٹس کے ذریعے لے جایا جا سکے۔ تاکہ بچوں کی ترقی کے میدان میں بہتر رول ادا کیا جا سکے۔

شراويا کی ماں اور ان کے شوہر کے مشن کو مقام تک پہنچانے کے لئے ان کے ساتھ ہیں۔ شراويا کہتی ہیں کہ ان دونوں کے علاوہ میرے لئے وہ تمام لوگ ایک عمدہ مثال ہیں جو معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے کے لئے محنت اور جدو جہد کرنے کو تیار ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے ہمیشہ آمدید۔

قلمکار بلال جعفری

مترجم زلیخا نظیر